نسل کشی اور ایذا رسانی کی روک تھام سے متعلق امریکہ نے سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز یہ رپورٹ جاری کی جس میں چھ ممالک میں نسل کشی اور ایذا رسانی کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
ان ممالک میں میانمار جسے برما بھی کہا جاتا ہے، چین، ایتھیوپیا، عراق، شام اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔
رپورٹ میں ان مالی، سفارتی اور دیگر اقدامات کا بھی ذکر ہے جو امریکی حکومت نسل کشی اور ایذا رسانی کو روکنے کے لئے کر رہی ہے۔
رپورٹ جاری کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا، ”اس سال پہلی مرتبہ اس رپورٹ میں مخصوص ممالک میں جن میں برما، ایتھیوپیا، چین اور شام شامل ہیں، ایذا رسانی کی تفصیلات براہِ راست بیان کی گئی ہیں۔ ان ممالک سے ہمارے ایجنڈے کو خارجہ پالیسی کے بعض سخت ترین چیلنجز درپیش ہیں۔”
وزیرِ خارجہ بلنکن نے مزید کہا، ”ہم ایک مربوط داخلی دباؤ اور ردِ عمل کے لئے وہ تمام ذرائع استعمال کریں گے جو ہمیں حاصل ہیں اور جن میں سفارتکاری، بیرونی امداد، حقائق معلوم کرنے کے مشن، مالیاتی ذرائع اور اس نوعیت کی رپورٹیں شامل ہیں جیسی کہ یہ ہے۔”
جنوری میں بلنکن نے اس بات کی توثیق کی تھی کہ چین سنکیانگ کے علاقیمیں ویغور لوگوں کے خلاف نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ تسلسل سے ان چینی عہدیداروں پر ویزے کی پابندیاں لگا رہا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مسلم اقلیتوں کو حراست میں لینے یا ان سے ناروا سلوک کے ذمے دار ہیں۔
امریکہ، یوروپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین کے دو عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں اور اسی بنیاد پر درجنون چینی کمپنیاں سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر نے والوں کی امریکی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔
بعض ماہرین کے نزدیک بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی کو روکنا نہ صرف ایک اخلاقی ذمے داری ہے بلکہ ایک فرض بھی ہے۔
‘جینوسائیڈ واچ’ کے بانی صدر گریگری سٹینٹن نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی امریکی وفاقی عدالتوں کے تحت عالمی عملداری کے جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ خواہ یہ نسل کشی دنیا میں کہیں بھی ہوئی ہو، امریکی وفاقی عدالتوں میں اس پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ مجرموں کا امریکہ میں موجود ہونا ضروری ہے، کیونکہ امریکہ میں کسی کے خلاف اس کی عدم موجودگی میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
‘1948 کے جینو سائیڈ کنونشن’ کے تحت، جس کی توثیق امریکہ نے 1988 میں کی، تمام ملکوں کا فرض ہے کہ وہ نسل کشی کو روکیں اور اس پر سزا دیں۔ یہ کہنا ہے ٹام ڈینن بام کا جو ٹفٹس یونیورسٹی کے فلیچر سکول میں انٹر نیشنل لا کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ فرض کسی اور ملک میں اس کی روک تھام کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔
اگرچہ چین، امریکہ اور دیگر 150 ممالک کے ساتھ اس ‘جینو سائیڈ کنونشن’ کا فریق ہے، مگر ڈینن بام کہتے ہیں کہ بیجنگ حکومت نے اس کی ایک شق پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، تاکہ چین کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمات کے امکان کو روکا جا سکے۔
میانمار کے معاملے میں امریکہ نے 2021 کی بغاوت کے بعد اس کی فوجی قیادت پر پابندیاں عائد کی ہیں اور اس کے ساتھ فوجی رابطے معطل کر دیے ہیں۔
امریکہ نے میانمار کے ان لوگوں کے لئے 18 ماہ تک عارضی تحفظ کی حیثیت کا بھی اعلان کیا ہے جو فوجی بغاوت کے بعد سے امریکہ میں موجود ہیں اور ملک کے حکمرانوں سے کہا ہے کہ وہ اقتدار جمہوری طور پر منتخب حکومت کے سپرد کریں اور احتجاج کرنے والوں کا قتل اور ان پر حملے بند کریں۔
مارچ کے مہینے میں امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن نے ایتھیوپیا کے ٹگرے کے علاقے میں جبر و ستم کو نسل کشی کی کارروائیاں قرار دیا تھا۔
امریکہ ایتھیوپیا کے لئے ایسی امداد پر پابندی لگا رہا ہے جس کا تعلق انسانی ہمدردی سے نہیں ہے اور اس ملک کے ساتھ دفاعی تجارت پر مزید پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
پیر کے روز جب وزیرِ خارجہ بلنکن سے سوال کیا گیا آیا امریکی حکومت نے ٹگرے اور برما میں روہنگیا کے خلاف جبر و ستم کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، تو بلنکن نے کہا کہ ان دونوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ان پر فعال طریقے سے غور ہو رہا ہے۔
تاہم ‘جینو سائیڈ واچ’ کے سٹینٹن نے امریکی محکمہ خارجہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے قانون دانون نے بہت سے دیگر ممالک میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں اعلانات کو روک دیا تھا۔
پیر کے روز وائس آف امریکہ کے لئے ایک ای میل میں سٹینٹن کا کہنا تھا کہ روانڈا میں نسل کشی کو تین ماہ تک نسل کشی کہنے سے انکار کیا گیا۔ ان کے مطابق اب بھی برما میں روہنگیا کے خلاف کارروائیوں کو نسل کشی تسلیم کرنے میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ اور اس بارے میں بھی رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے کہ نائیجیریا میں مسیحیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔
امریکہ میں ایلی ویزل جینو سائیڈ اینڈ ایٹروسیٹیز پریوینشن ایکٹ 2018 کو 14 جنوری 2019 میں قانون کا درجہ دیا گیا تھا۔
قانون کا تقاضا ہے کہ عالمی سطح پر جبر و ستم اور اس کے خطرے سے دوچار ممالک کا اندازہ لگا کر اس کی روک تھام کے لئے امریکی حکومت کی تازہ ترین کوششوں کی تفصیل درج کی جائے۔