کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے افغانستان اور ترکی کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے جاری انخلا اور ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں اور اضلاع پر قبضوں سے کابل میں واقع حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی سلامتی اور تحفظ کے لیے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔
امریکی عہدے داروں نے اس سے قبل یہ اشارہ دیا تھا کہ ترکی، جو نیٹو کا رکن ہے اور جس کے فوجی افغانستان میں نیٹو کے مشن میں شریک ہیں، کابل کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو سیکیورٹی فراہم کر سکتے ہیں، تاکہ ملک بیرونی رابطوں کے لیے کھلا رہے۔
دوسری جانب طالبان کا مطالبہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کی واپسی کا ہے اور وہ اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس سرزمین پر ترکی سمیت کسی بھی غیر ملکی فوجی کی موجودگی کی مخالفت کریں گے۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ایک عہدے دار کے مطابق ایئرپورٹ پر راکٹ حملوں کو روکنے کے لیے جدید ترین سسٹم نصب کرنے کے بعد اس کی ٹیسٹنگ کر لی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان حامد روشن نے کہا ہے کہ اس نظام کی تنصیب سے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو مزید تحفظ حاصل ہو جائے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی کہا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے۔
افغانستان کے ایک سیاسی تجزیہ کار نجیب آزاد نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی نیٹو اتحاد کا ایک رکن ہے اور ترک حکومت کے ساتھ اس معاہدے سے کابل میں کام کرنے والے غیر ملکی سفارت کار خود کو محفوظ خیال کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترک حکومت علاقائی اور بین الاقوامی امور میں فعال کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا معاہدہ اس کی ایک مثال ہے۔ تاہم، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ طالبان اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، کیونکہ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فوجی موجودگی کے خلاف ہیں، جس میں ترکی بھی شامل ہے۔
اس سے قبل امریکی عہدے داروں نے کہا تھا کہ افغانستان سے انخلا کے باوجود کابل میں امریکی سفارت خانے اور عملے کے تحفظ کے لیے معقول فوجی موجودگی برقرار رکھی جائے گی۔ میڈیا ذرائع کے مطابق یہ تعداد تقریباً 650 ہو گی۔