ایران کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ تہران کی میزبانی میں افغان حکومت کے وفد اور طالبان رہنماؤں میں ملاقات ہوئی ہے۔
فریقین میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب غیر ملکی افواج تیزی سے افغانستان سے انخلا میں مصروف ہیں اور اطلاعات کے مطابق طالبان کے شدت پسند ایک کے بعد ایک ضلع پر قبضے کی کوشش کر رہے ہیں اور کئی درجن اضلاع پر ان کا قبضہ ہو بھی چکا ہے۔
افغان حکومت کے وفد اور طالبان میں بدھ اور جمعرات کو اعلیٰ سطح پر ہونے والے مذاکرات میں اتفاق کیا گیا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مذاکرات کے بعد چھ نکاتی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں افغان تنازع کے پرامن حل پر زور دیا گیا ہے۔
فریقین نے یہ بھی اتفاق کیا کہ مسئلے پر مزید بات چیت بھی جاری رہنی چاہیے تاکہ ایسا طریقہ کار بنایا جائے جس میں جنگ سے امن کی جانب قدم بڑھائے جا سکیں۔
مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عام شہریوں کے گھروں، تعلیمی اداروں، مساجد اور اسپتالوں کو نشانہ بنانے یا عام لوگوں کی اموات قابلِ مذمت ہیں جب کہ سرکاری املاک کو تباہ کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔
دو روزہ مذاکرات کا آغاز بدھ کو ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے خطاب سے ہوا تھا۔
مذاکرات میں طالبان کے وفد کی قیادت شیر محمد عباس استنکزئی کر رہے تھے جب کہ کابل سے آنے والے سیاسی رہنماؤں کے وفد کے سربراہ سابق نائب صدر یونس قانونی تھے۔
افغان وفد میں صدر اشرف غنی کے مشیر سلام رحیمی، سابق صدر حامد کرزئی کے چیف آف اسٹاف کریم خرم، حامد کرزئی کے قریبی ساتھی ارشاد احمدی، سیاسی جماعت حزبِ وحدت کے ظاہر وحدت اور جنبشِ ملی نامی جماعت کے محمد اللہ بتاش شامل تھے۔
ارشاد احمد نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ فریقین نے تہران میں ہونے والے مذاکرات میں تنازع جاری رہنے کی صورت میں ملک پر پڑنے والے منفی اثرات کے خطرات پر بھی بات کی۔
واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات کئی ماہ قبل اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے ایک بیان میں فریقین سے اظہار تشکر کیا کہ انہوں نے افغان عوام کو اولیت دی۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امن کے لیے امن بہادری دکھانا جنگ میں بہادری دکھانے سے بہتری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی ایک کو لازمی طور پر قربانی دینا ہو گی اور اپنے زیادہ تر مطالبات کو پسِ پشت ڈالنا ہو گا۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں تصدیق کی تھی کہ طالبان کا وفد باہمی مفاد کے معاملات پر تبادلہ خیال کے لیے تہران گیا ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ اس دوران افغانستان کی حکومت کے کسی وفد سے ملاقات ہو گی۔ البتہ یہ کہا گیا تھا کہ افغان سیاسی رہنماؤں سے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ایران اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ ساڑھے نو سو کلو میٹرسرحد لگتی ہے۔ جب کہ پاکستان کی طرح ایران میں بھی کئی لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ حالیہ مہینوں میں سامنے آنے والی صورتِ حال کے باعث وہاں موجود مہاجرین بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں۔