کوئٹہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ریلی پر پولیس کا تشدد

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسز کی ریلی کو پولیس نے کٹھ پتلی بلوچستان اسمبلی کی طرف جانے سے روک کر خواتین پر تشدد کیا پولیس تشدد سے ایک حاملہ خاتون کی حالت غیر ہوگئی۔جبری بلوچ لاپتہ افراد کے دن کی مناسبت سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔پولیس کی مداخلت اور تشدد کے باوجود شرکاء نے ریلی کو منظم رکھا اور سڑک پر بیٹھ کر دھرنا دیا۔

ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین نے کہا ذاکر مجید کی ماں کے کہنے پر ہم نے فیصلہ کیا تھا ہم اسمبلی کے سامنے جا کر احتجاج کریں گے تاکہ ہماری آواز حکام تک پہنچ سکے لیکن پولیس نے ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، ہم پر تشدد کیا، دھکے مارے گئے۔انھوں نے کہا 12 سال شاید ہم ایک لمحے میں کہہ سکتے ہیں لیکن کیا آپ لوگوں کو اندازہ ہے کہ یہ 12 سال اس ماں نے کس اذیت اور کس کرب میں گزارے ہیں یا اس گھر کا ماحول کیسا ہے جہاں ہر لمحہ ایک درد اور ایک غیر یقینی کی کیفیت ہو کہ میرا بیٹا، میرا بھائی کہاں ہے؟کس حال میں ہے؟ میں اس کو زندوں میں شمار کرؤں یا مردوں میں شمار کرؤں۔

انھوں نے کہا جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاجی ریلی نکالی۔ہمارے مطالبات حکومت سے ہیں، ہم سالوں احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہتے ہیں لیکن وہاں پہ سننے والا کوئی نہیں اس لیے ذاکرمجید کی والدہ کا یہی فیصلہ تھا کہ آج ہم اسمبلی کے سامنے جائیں گے جہاں شاید دو قدم کی دوری پر پریس کلب کے سامنے لوگوں کو ہماری آواز نہیں پہنچتی، شاید اسمبلی کے سامنے ہم اپنی چیخ و پکار اور درد کو ان کے کانوں تک پہنچا سکیں۔

انھوں نے ریلی پر پولیس تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ راستے میں پولیس نے ہمیں روکا، تشدد بھی کیا۔شرکاء میں دو تین خواتین پر تشدد کیا گیا ان میں ایک حاملہ ہیں تشدد کی وجہ سے اس کی طبیعت ابھی خراب ہوتی جارہی ہے۔ہمیں راستے میں دھکے دیئے گئے، ہمیں مارا گیا، پیٹا گیا۔جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا ہم حکومت سے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کو ہمارے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے بجائے اس کے آپ شرکاء پر لاٹھی چارج کرائیں۔بجائے اس کے اپنی پولیس کو ان پر تشدد کے لیے بھیجیں۔انتہائی افسوس کی بات ہے ہمارے لوگ سالوں سے اذیت خانوں میں ہیں اور جب ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے تو ان کے لواحقین پر بھی لاٹھی چارج کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رویے سے ہم بیزار ہوچکے ہیں۔ ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ آئیں ہمیں بھی آکر لے جائیں۔ہمیں بھی اس درد سے اس تکلیف سے نجات دلائیں تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو کہ ہم نے بھی کچھ کیا ہے۔تاکہ ہمیں بھی پتا ہو کہ ہم نے اپنے لوگوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ہم ان زندگیوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔ہم تھک چکے ہیں، ہم ناامید اور مایوس ہوچکے ہیں۔ہمارے لیے ایک ایک لمحہ درد اور تکلیف سے بھرا ہے ہم اور مزید جینا نہیں چاہتے۔اگر آپ ہمیں یہاں تک ٓانے نہیں دیتے تو ہمیں بھی اذیت خانے میں بھی لے کر جاؤ۔

احتجاجی ریلی سے جبری لاپتہ طلباء رہنماء شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے بھی خطاب کیا انھوں نے کہا حکام ہم سے جھوٹے وعدے کرکے ہمارے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور ہمارے پیارے سالوں سے اذیت گاہوں میں بند ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم سڑکوں پر چیخ چیخ کر تھک چکے ہیں ہمیں اتنا بتادیں کہ ہمارے بھائی کب ائیں گے۔شیریں مزاری کے الفاظ شاید ہمارے پیاروں کی طرح لاپتہ ہوچکے ہیں۔ ہم اپنے ماں باب اور چھوٹے بھائی بہنوں کو کیا جواب دیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم سے احتجاج کا حق بھی چھینا جا رہا ہے، ہمیں ہمارے سوالوں کا جواب چاہئے اگر وہ نہیں دے سکتے تو ہمیں بھی ہمارے بھائیوں کے پاس لے جاؤ۔

ریلی سے جبری لاپتہ راشد حسین، ذاکر مجید، بہادر علی کیا زھی، جہانزیب محمد حسنی،حفیظ رند،کبیر بلوچ اور دیگر کے لواحقین نے شرکت کی اور ریلی سے خطاب کیا۔

Share This Article
Leave a Comment