وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا یروشلم میں امریکی قونصلیٹ بحال کرنے کا اعلان

0
269

امریکہ کے وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے فلسطینیوں کے ساتھ اہم سفارتی روابط بحال کرنے کے منصوبے کے طور پر یروشلم میں امریکی قونصلیٹ کو دوبارہ بحال کرنے اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے تقریباً چالیس ملین (چار کروڑ) ڈالر کی نئی امداد کا وعدہ کیا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ کا یہ اعلان سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی پالیسیوں میں یکسر تبدیلی کے اشارے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

خطے کے اپنے پہلے دورے میں انٹنی بلنکن نے اسرائیل اور فلسطینی راہنماوں کے ساتھ ملاقات کی، جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی پٹی پر گیارہ روز کی لڑائی کے بعد گزشتہ ہفتے ہونے والی جنگ بندی کو مستحکم کرنا تھا۔ امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی وعدہ کیا کہ فلسطینیوں کے لیے امداد میں سے حماس کو کچھ نہیں مل پائے گا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکی وزیرخارجہ نے بار بار اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دہائیوں پر محیط تنازعے کا ذکر کیا اور دونوں فریقوں کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے طویل المدتی امن پر کم ہی زور دیا۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، اس کی وجہ ماضی میں کئی امریکی حکومتوں کی جانب سے اس ضمن میں ہونے والی کوششوں کی ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم بلنکن نے ایسے ماحول کے پیدا ہونے کے لیے امید کا اظہارکیا جو ایک دن مذاکرات کی طرف لے جائے گا۔

محتاط انداز میں اپنی توقعات کے اظہار کے باوجود امریکہ کے وزیرخارجہ نے واضح کیا کہ صدر جو بائیڈن اپنے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس خطے کے لیے ایک جیسی حکمت عملی چاہتے ہیں۔

ان کے الفاظ میں، ”میں نے صدر (محمود عباس) کو بتایا ہے، میں یہاں اس لیے ہوں کہ امریکہ کے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات کے از سر نو استوار کرنے میں امریکہ کے عزم کو اجاگر کر سکوں۔ ایک ایسا تعلق جو باہمی احترام اور اس مشترکہ یقین پر قائم ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو سلامتی، آزادی، مواقع اور اپنے وقار کے لیے برابر اقدامات کا حق حاصل ہے۔“

مسٹر بلنکن نے ان خیالات کا اظہار مغربی کنارے پر فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔

انٹنی بلنکن نے اس موقع پر کہا کہ امریکہ یروشلم میں دوبارہ قونصلیٹ کھول رہا ہے۔ یہ وہ دفتر ہے، جو گزشتہ چار سال امریکہ کے سفارتخانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، بلنکن کے اس اقدام کو ایک بڑی علامتی اہمیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقدس شہر ییروشلم منتقل کر دیا تھا اور وہاں کے آپریشنز کو اسرائیل کے لیے امریکی سفیر کے سپرد کر دیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ نے اس دفتر کو دوبارہ قونصلیٹ کے طور پر کھولنے کے لیے حتمی تاریخ نہیں دی ہے، لیکن ایک سینئر امریکی سفارتکار مائیکل رتنے نے، جو یروشلم میں قونصل جنرل بھی رہے ہیں، کہا ہے کہ وہ جلد اس خطے میں واپس آئیں گے۔

انٹنی بلنکن نے فلسطینیوں کے لیے مزید 38 اعشاریہ 5 ملین ڈالر امداد کا بھی اعلان کیا۔ اس طرح بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اب تک فلسطینیوں کے لیے مجموعی امداد 3 سو 60 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کے لیے تقریباً تمام امداد بند کر دی تھی۔

اس سے قبل منگل ہی کے روز امریکی وزیرخارجہ نے یروشلم میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جانی نقصان اکثر محض اعداد و شمار سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ہر نمبر کے پیچھے ایک انسان ہوتا ہے، ایک بیٹی، ایک بیٹا، ایک باپ، ایک ماں، نانا دادا اور ایک بہترین دوست ہوتا ہے۔“

اس موقع پر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے حمایت کے اظہار پر امریکہ کا شکریہ ادا کیا، جبکہ عسکریت پسندوں کو جنگ بندی کی پاسداری کرنے کا انتباہ بھی کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر حماس نے امن میں خلل ڈالا اور اسرائیل پر حملہ کیا تو ہمارا جواب بہت پُرزور ہو گا۔

اس موقع پر نیتن یاہو نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے عائد پابندیوں میں رعایت دینے کے بین الاقوامی معاہدے میں امریکہ کی از سر نو شمولیت کے امکان کی مخالفت کی۔

نیتن یاہو اس معاہدے کے ناقد رہے ہیں اور منگل کو بھی انہوں نے اپنا مو?قف دہراتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک ایسا کرنا ایران کو بین الاقومی جواز کے ساتھ جوہری ہتھیار فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

واضح رہے کہ 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ ان کے نزدیک اس معاہدے میں ایران کو زیادہ مراعات دی گئیں جب کہ اس کی جوہری سرگرمی کو روکنے کے لیے کافی بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ 2015 میں جب ایران اور عالمی قوتوں کے گروپ بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا تو صدر بائیڈن اس وقت امریکہ کے نائب صدر تھے۔

اس معاہدے میں شامل ممالک کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ناممکن بنانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے تنصیبات کی جانچ پڑتال اور یورینیم افزودگی کو خاص مقدار تک محدود رکھنے کا پابند کیا جائے اور ساتھ ہی یورینیم کی افزودگی کی سطح محدود اور بعض تنصیبات کو ختم کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here