بلوچستان میں حکمراں جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی مخلوط حکومت میں ایک مرتبہ پھر اختلافات سامنے آ رہے ہیں اور اتحادی جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما کٹھ پتلی وزیرِ اعلی جام کمال کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ جام کمال کو اتحادی ہی نہیں بلکہ اپنی جماعت کے اراکین کی ناراضگی کا بھی سامنا ہے۔
تحریک انصاف کے بلوچستان کے صدر اور پارلیمانی سربراہ سردار یار محمد رند تحریکِ عدمِ اعتماد پر وزیرِ اعظم عمران خان کو قائل کرنے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ تاہم جام کمال کی وزراتِ اعلی کو بچانے کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی متحرک ہو گئے ہیں اور انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے۔
اختلافات اور بلوچستان حکومتی رہنماؤں کے درمیان بیان بازی کے ماحول میں وزیرِ اعلی جام کمال نے وزیرِ بلدیات سردار صالح بھوتانی سے قلم دان واپس لے لیا ہے۔
ادھر وزیرِ خزانہ ظہور بلیدی وزرا کالونی کو چھوڑتے ہوئے اراکین اسمبلی کے لیے مختص ہاسٹل میں رہائش کی درخواست دے کر پہلے سے ناراض اسپیکر اسمبلی قدوس بزنجو کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔
گزشتہ برس جام کمال نے اختلافات کی بنیاد پر مخلوط حکومت میں شامل تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی میر نصیب اللہ مری سے صحت کا قلم دان واپس لے لیا تھا۔
اختلافات ختم کرانے کے لیے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ کوئٹہ بھی بظاہر زیادہ مفید نہیں رہا۔ کیوں کہ وزیرِ اعظم کے دورے کے بعد اختلافات تھمنے کے بجائے لفظی جنگ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جام کمال اہم فیصلوں میں اتحادی جماعت اور اس کے پارلیمانی رہنما کو اعتماد میں نہیں لے رہے۔
عمران خان نے تحریکِ انصاف کے پارلیمانی رہنماؤں اور وزیرِ اعلیٰ جام کمال سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر اسد عمر سے اتحادیوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
تحریک انصاف کے بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ اسد عمر کی منگل کو اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تاہم اس میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہوسکی۔
ذرائع کے مطابق رہنماؤں کے جام کمال کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کے مطالبے پر اسد عمر نے وزیرِ اعظم سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ہے۔
البتہ تحریک انصاف کی بلوچستان پارلیمانی پارٹی نے گورنر بلوچستان کے لیے تین نام پیش کر دیے ہیں جن میں ہمایوں جوگیزئی، امین رئیسانی اور حاجی نواب شامل ہیں۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران پارٹی رہنماؤں سے گورنر بلوچستان کی تبدیلی پر اتفاق کیا تھا اور اس حوالے سے نام تجویز کرنے کا کہا تھا۔
بی اے پی کے رہنما اور سینیٹ میں پارلیمانی سربراہ انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ بی اے پی وفاق میں تحریکِ انصاف اور تحریک انصافِ بلوچستان میں ان کی اتحادی ہے لہذا وزارتِ اعلی میں تبدیلی کا کوئی بھی فیصلہ مشترکہ طور پر لیا جائے گا۔
انوار کاکڑنے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اس قدر کمزور نہیں کہ وہ چند افراد کے دباؤ میں آکر ایسا فیصلہ لے لیں جس سے اتحادی جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سارے عمل کے ذریعے بعض رہنما توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو انہیں میڈیا کے ذریعے دستیاب ہے۔
بلوچستان کے سیاسی امور کو دیکھنے والے صحافی بلال ڈار کہتے ہیں کہ جام کمال کے خلاف ایک سنجیدہ تحریک چل رہی ہے جس کی کامیابی کا دار و مدار وزیرِ اعظم عمران خان پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان تحریکِ عدمِ اعتماد لانے کی اجازت نہیں دیتے تو یہ بحران وقتی طور پر ٹل جائے گا مگر ختم نہیں ہوگا۔
ان کے بقول یہ معاملہ محض تحریک انصاف کے اراکین کی ناراضگی کا نہیں بلکہ بی اے پی کے ناراض اراکین کے علاوہ اتحادی جماعتوں نیشنل پارٹی عوامی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے بھی جام کمال پر تحفظات ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہبلوچستان کے رہنماؤں نے کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ جام کمال سے اختلافات کا اعلانیہ اظہار کیا ہو۔ گزشتہ برس بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میر عبد القدوس بزنجو کے وزیر اعلیٰ جام کمال سے اختلافات سامنے آئے تھے۔