پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونیکا فیصلہ

0
212

پاکستان پیپلز پارٹی نے حزبِ مخالف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔

پیر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کی طرف سے استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کو شو کاز نوٹس بھیجنے پر احتجاجاً ان کی پارٹی پی ڈی ایم کی طرف سے دیے گئے تمام عہدوں سے مستعفیٰ ہو گی۔

’سی ای سی نے ہدایات جاری کی ہیں کہ پی ڈی ایم میں پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام عہدیدارن اپنے اپنے عہدوں سے فی الفور استعفے جمع کروائیں۔‘

بلاول بھٹو کے مطابق ان کی جماعت نے پی ڈی ایم کی طرف سے دیے گئے شوکاز نوٹس کو مسترد کرتی ہے۔ ان کے مطابق سیاست اور بالخصوص اتحاد کی سیاست عزت اور برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس شوکاز نوٹس کی کوئی ت±ک نہیں تھی اور نہ ہی ایسی کوئی روایت ہے کہ شوکاز نوٹس دیے جائیں۔

جو استعفی دینا چاہتے ہیں وہ استعفی دیں مگر اپنا فیصلہ ہم پر مسلط نہ کریں۔

’ہم اے این پی کے ساتھ ہیں اور آئندہ تمام فیصلے باہمی بات چیت سے کریں گے۔ ہمارے دروازے ہر اس پارٹی کے لیے کھلے ہیں جو اس حکومت کو گرانا چاہتی ہے اور حقیقی اپوزیشن کرنا چاہتی ہے۔ ہم حکومت کے خلاف حقیقی اپوزیشن کرتے رہیں گے۔‘

شوکاز نوٹس دینے پر انھوں نے پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے غیر مشروط معافی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کو استعفیوں سے نتھی کر کے ایک سازش کے تحت نقصان پہنچایا گیا۔ ’استعفیٰ ٹائم بم ہیں، یہ آخری ہتھیار ہیں اور ہم اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔ ہمارا یہ تاریخی موقف درست ثابت ہوا، ضمنی انتخابات میں حکومت کو ایکسپوز کیا گیا دنیا نے دیکھا کہ عوام اپوزیشن کے ساتھ ہے حکومت کے ساتھ نہیں۔‘

بلاول کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت کو نہ پہلے بیٹھنے دیا نہ آئندہ بیٹھنے دیں گے۔ جس کو استعفیٰ دینا ہے دے، مگر کسی دوسری پارٹی کو ڈکٹیٹ نہ کرے۔ پنجاب میں سینیٹ کی پانچ سیٹیں پی ٹی آئی کو دی گئیں تو کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا گیا۔‘

بلاول کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست نہیں کرنا چاہتے ہیں اور ایسی سیاست کی مخالفت کریں گے۔ دوسری جماعتوں کے کہنے پر اگر الیکشن کا بائیکاٹ کرتے تو پاکستان تحریک انصاف تمام سیٹیں جیت جاتی۔ استعفی، لانگ مارچ کو اپوزیشن کرنے سے مشروط کرنے کا نقصان ہوا۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ن لیگ نے گلگت بلتستان میں اقلیت میں ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی سے اپوزیشن لیڈر کی نشت چھیننے کی کوشش کی۔‘

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ اصولوں، منشور اور نظریات کے مطابق جمہوریت کی جنگ لڑتی آئی ہے اور کبھی کسی کے خلاف کوئی ذاتی لڑائی نہیں لڑی۔

’پیپلز پارٹی نے اس جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو ایوبی، ضیا اور مشرف کی آمریت سے نجات دلائی ہے اور اب انشاللہ سلیکٹیڈ سے بھی نجات دلائے گی۔‘

بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ سی ای سی نے فیصلہ کیا ہے کہ استعفے نہیں دیے جائیں گے۔ یہ ایٹم بم اور آخری ہتھیار ہونے چائییں۔ ہمارا اب بھی یہی مو¿قف رہے گا۔

ان کے مطابق یہ مو¿قف صیحح ثابت ہوا ہے۔ ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر پی ڈی ایم نے حکومت کو ایکسپوز کر دیا ہے۔

اگر ہم دوسری جماعتوں کے کہنے پر چلتے اور بائیکاٹ کرتے تو یہ نشستیں تحریک انصاف کو ملتیں جو جمہوری عمل کے لیے اچھا نہ ہوتا۔ ان کے مطابق ہم نے سینیٹ انتخابات میں حصہ لے کر نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انھیں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرنے دی۔

بلاول بھٹو کے مطابق حکومتی امیدوار کو وزیر اعظم کے حلقے سے ہروایا گیا۔

بلاول بھٹو نے پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے وکیل اعظم نذیر تارڑ کو سینیٹر منتخب کرانے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ سوچ ہی کیسے آئی کہ میری ماں کے قتل میں ملوث افراد کے وکیل کوآپ نے سینیٹر بنوایا اور پھر اسے اپوزیشن لیڈر کے لیے سامنے لایا۔

بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم انھوں نے خود بنائی تھی۔ ان کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کو ایک دوسرے سے روابط رکھنے ہوں گے۔ کسی صورت میں عزت اور برابری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے تحفظات ازالہ کیا جائے گا۔

بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی طرف سے مرکزی بینک کے اختیارات ، دائرہ کار اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے متلعق حکومت کی طرف سے اعلان کردہ آرڈیننس کی بھرپور مخالفت کی ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جب یہ آرڈیننس پیش کیا گیا تو وہ اس کی مخالفت کریں گے اور اسے عدالت میں بھی چیلنج کریں گے۔ ان کے مطابق ‘یہ کیسا آرڈیننس ہے کہ سٹیٹ بینک عدالت اور پارلیمان کو جوابدہ نہیں ہوگا۔’

بلاول بھٹو کے مطابق حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے جو فیصلے لیے جاتے ہیں وہ پاکستان کے حمایت میں نہیں ہوتے۔ پی ٹی۔آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ پاکستان کے عوام کے حق میں نہیں ہے۔ ان کے مطابق یہ آرڈیننس پاکستان کی خود مختاری پر تاریخی حملہ ہے اور یہ آرڈیننس پارلیمان اور پاکستان کے عوام کے سامنے نہیں لایا گیا ہے۔

بلاول بھٹو نے تحریک انصاف حکومت کی کشمیر پر پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق کشمیر پر کنفیوزڈ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ ہم پہلے دن اس پالیسی کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔

ان کے مطابق ان کی جماعت کا کشمیر سے ایک نسلوں کا تعلق ہے۔ انھوں نے کہا پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ وہ کشمیر پر نیند میں بھی غلطی نہیں کر سکتے۔

بلاول بھٹو کے مطابق اس وقت حکومت اور ریاستی اداروں کی کشمیر سے متعلق پالیسی تضادات اور کنفیوڑن پر مبنی ہے۔

ان کے مطابق حکومت کبھی تجارت اور کبھی بات چیت آگے بڑھانے کی بات کرتی ہے اور کبھی کہتی ہے کہ بات نہیں ہوگی۔ انھوں نے انڈیا کے ساتھ تجارت کی خبروں پر بھی کہا کہ ایک طرف وزیراعظم وزیر تجارت کی حیثیت سے اس سمری کی منظوری دیتے ہیں اور پھر وہ وزیراعظم کی حیثیت سے اس کی مخالفت کر دیتے ہیں۔

ان کے مطابق اس طرح کی پالیسی نہیں چل سکتی۔ ان کے مطابق پاکستان کا موقف یہ تھا کہ جب تک انڈیا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کو واپس نہیں لیتا تو بات نہیں کریں گے تو پھر اچانک بات چیت اور تجارت کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔۔ اس پالیسی کو کیا کہا جا سکتا ہے؟

ان کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کبھی کہتے ہیں کہ وہ کشمیر کے سفیر بنیں اور کبھی وہ کلبھوشن کے وکیل بن جاتا ہے۔

انھوں نے مردم شماری کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔ ان کے مطابق مردم شماری کے درست نتائج کے بغیر صاف اور شفاف انتخابات کا خواب پورا نہیں ہو سکتا اور اس سے متناسب نمائندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here