پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان کی تجویز پر سوشل میڈیا سے متعلق قوانین وضع کرنے کے لیے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔
اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا رولز 2020 سے متعلق درخواست دائر کرنے والے اور دیگر فریقین سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم کو تجاویز دی تھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو تجویز دی تھی کہ سوشل میڈیا رولز وضع کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت حاصل آزادی اظہار کے بنیادی حقوق اور جاننے کے حق کا تحفظ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال نہ ہو اور مواد میں قوانین کی خلاف ورزی نہ ہو۔
بیان میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کی تجویز پر وزیراعظم عمران خان نے شیریں مزاری کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
کمیٹی میں ملیکہ بخاری، سینٹر علی ظفر، سیکریٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) بھی شامل ہیں۔
کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈر سمیت درخواست گزاروں سے مشاورت کے بعد 30 روز کے اندر اپنی سفارشات وزیر اعظم کو دے گی۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اس اقدام کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ 1948 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق آزادی اظہار رائے ہر ایک کا حق ہے، اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے اور سرحدوں سے قطع نظر کسی بھی میڈیا کے ذریعے غیر جانبدار معلومات وصول کرنا شامل ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ معاشرے میں آزادانہ روابط رکھنے کی آزادی کا معیار معاشرے کی ترقی کے ساتھ جمہوریت اور معاشرے کی مضبوطی پر گہرا اثر رکھتا ہے، سیاسی تناظر میں آزادی رائے ہر قسم کے سیاسی مسائل پر بات کرنے کے لیے شہریوں کا قابلِ تنسیخ حق ہے۔
مزید کہا گیا تھا کہ ’آئین پاکستان دفعہ 19 کے تحت شہریوں کو بنیادی آزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے اور صرف ’قانون کے تحت نافذ‘ پابندیوں کی اجازت دیتا ہے۔
درخواست میں دیگر ممالک کے سوشل میڈیا قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کسی قابل ذکر جمہوری ملک میں سخت میڈیا پالیسی نافذ نہیں، کسی ملک میں شاید ہی کوئی ایسا جامع قانون موجود ہے جو سوشل میڈیا کے تمام پہلوو¿ں کو ریگولیٹ کرتا ہو تاہم صنعت میں سرکاری عناصر کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔