پاکستان ، بنگلہ دیش و بھارت کے دینی مدارس میں طلبا کو شدید جسمانی تشدد کا سامنا ہے، رپورٹ

0
348

بدسلوکی کی روک تھام کے لیے حالیہ کوششوں کے باوجود بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں طلبا کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں لیکن وکلائ کے مطابق قانونی کوششیں اب بھی ناکافی ہیں۔

زیادہ تر مدرسوں میں کوئی طے شدہ نصاب نہیں پایا جاتا۔

بنگلہ دیش میں حال ہی میں ایک مدرسے کے استاد کی جانب سے ایک طالبعلم کی سالگرہ کے موقع پر اسے بے دردی سے کوڑے مارنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ مبینہ طور پر اس آٹھ سالہ بچے نے اپنی والدہ کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے کمپائونڈ چھوڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایک ایسے دن، جو اس کا جنم دن یا سالگرہ کا دن تھا۔ اس کی ماں اپنے بیٹے کے لیے تحائف لے کر اس سے ملنے آئی تھی۔

جنوب مشرقی بندرگاہی شہر چٹاکانگ میں پیش آنے والے وائرل واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور بعد میں اس استاد کی گرفتاری عمل میں آئی۔ مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں بہت سارے سوشل میڈیا صارفین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ واقعہ اکا دکا رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش میں کئی دہائیوں سے چلے آ رہے، اس قسم کے وحشیانہ عمل کی یاد دہانی ہے۔

بنگلہ دیش بیورو آف شماریات ‘بی بی ایس‘ اور یونیسیف کے ذرائع کے مطابق 2012 ءاور 2013 ء کے درمیان کرائے گئے ایک سروے سے پتا لگا ہے کہ اس ملک میں ایک سال سے لے کر 14 سال کی عمر تک کے 80 فیصد سے زیادہ بچوں کو ”پرتشدد سزا“ کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ 74.4 فیصد نفسیاتی جارحیت کا شکار ہوئے۔ 65.9 فیصد بچوں کو جسمانی سزا دی جا چکی ہے، جن میں سے 24.6 فیصد نے سخت جسمانی سزا پائی۔

اکثر مدرسوں میں چھوٹی عمر کی بچیاں بھی قران کی تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں۔

سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ صرف 33.3 فیصد جواب دہندگان کا خیال ہے کہ بچوں کی پرورش کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے۔ سروے کے مطابق تعلیم سے محروم یا کم تعلیم یافتہ اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو جسمانی سزا ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس سروے میں سرکاری اسکولوں یا دینی مدارس میں بچوں کو سزائیں دینے کے تناسب کے فرق کی البتہ وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

ڈھاکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں بچوں کے ماہر نفسیات ہلال الدین احمد کا خیال ہے کہ مدرسے کے طلبا کو باقاعدہ اسکول کے طلبا کے مقابلے میں زیادہ جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی اور نفسیاتی اذیت کا سامنا کرنے والے طلبا اکثر افسردہ اور خوف کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا،”وہ اکثر منفی ذہنیت کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں اور احساس کمتری کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان زیادتیوں کی وجہ سے ایک بچے کی نفسیاتی نشوونما میں شدید رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ جارحانہ بھی ہو سکتا ہے۔“

سن 2011ءمیں طلبا کو بید زنی کی وحشیانہ سزا کے متعدد سلسلہ وار واقعات سامنے آئے، جس سے انہیں شدید چوٹیں آئیں۔ یہ خبریں عام ہونے پر بنگلہ دیشی حکومت نے تعلیمی اداروں میں ہر قسم کی سزا پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے”ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز“ قرار دیا۔ یہ قانون مدرسوں سمیت تمام اسکولوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

تاہم ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی یہ عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں کام کرنے والی وکیل میتی سنجنا کا ڈوئچے ویلے کے ساتھ اس بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ”بنگلہ دیش میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا ایک سنگین تشویش میں بدل گئی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ بہت سارے بچوں کے ذہنوں میں جسمانی سزا کی وجہ سے اسکول جانے کا خوف ایک طویل عرصے تک بیٹھ جاتا ہے۔“ ان کا ماننا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کی سخت پابندی کے لیے مزید قانون سازی ضروری ہے۔

ڈھاکا کی ایک ہیومن رائٹس کی ماہر اور وکیل عشرت حسن کہتی ہیں کہ انہیں موجودہ قوانین اور بچوں کو جسمانی سزا دینے کی ممانعت کے بیچ ایک بڑی خلیج نظر آتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”تاہم 2013 ءکے چلڈرن ایکٹ کے تحت کسی بھی فرد کو کسی بچے کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے پر سزا دی جا سکتی ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کی خاطر اس قانون میں کچھ مخصوص دفعات کے ساتھ ترمیم کی جانی چاہیے۔“

پاکستان میں بھی بہت سارے طلبا کو ظالمانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے سالوں میں ایسے حالات میں بمشکل بہتری آئی ہے۔ کچھ طالب علموں کو مار پیٹ کے نتیجے میں نہ صرف چوٹیں آئیں بلکہ چند ایک بدترین واقعات میں تو طالبعلموں کی جان تک چلی گئی۔ 54 سالہ محمد افضل کا کہنا ہے کہ وہ فروری 2019 ءکا وہ دن نہیں بھول سکتے، جب ان کے بڑے بیٹے جنید افضل کی ایک مدرسے کے مولوی کے ہاتھوں بے دردی سے پٹائی کے نتیجے میں موت واقع ہو گئی۔ افضل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا بیٹا پنجاب کے قصبے لالہ موسیٰ کے قریب واقع اپنے گاو¿ں کے اسکول میں پڑھتا تھا۔ تب اس کے اسکول کے کچھ دوستوں نے لاہور کے ایک مدرسے میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جنید نے بھی ان میں شامل ہونے کی ضد کی۔ محمد افضل نے مزید بیان کیا،”میں نے اسے اس امید کے ساتھ مدرسے بھیجا کہ وہ دل سے قرآن سیکھنے کے بعد گھر میں برکت لےکر آئے گا لیکن اس کی بجائے مجھے اس کی لاش ملی۔ مولوی نے اسے اس حد تک پیٹا تھا کہ اس کا جسم نیلا ہو گیا تھا۔“

پاکستان میں مذہبی شخصیات کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور یہاں تک کہ بعض اوقات پولیس ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کرنے سے بھی گریزاں نظر آتی ہے۔ افضل نے بتایا کہ ملزم مولوی کے خلاف ان کے بیٹے کی موت کا مقدمہ درج کروانے میں تین ماہ لگے۔

بچوں کے استحصال کے خلاف بہت سے معاشروں میں تحریکیں چل رہی ہیں۔

اسلام آباد میں بچوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ممتاز گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دینی مدارس میں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ اس سال جنوری میں پنجاب کے ضلع وہاڑی میں ایک آٹھ سالہ لڑکے کو ایک دینی استاد نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ 2018 ءجنوری میں جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں ایک اور آٹھ سالہ لڑکے کو ایک مولوی نے زد و کوب کر کے ہلاک کر دیا۔

پاکستان میں بھی اس طرح کی مار پیٹ کی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ گزشتہ ماہ حکومت نے جسمانی سزا پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ایک بل منظور کیا تھا لیکن پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق چیئرمین مہدی حسن کا خیال ہے کہ مذہبی حلقے کے ردعمل کے خوف کے سبب حکومت نے ابھی تک اس پر خاطر خواہ کارروائی نہیں کی ہے۔ حسن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،”علما یہ خیال کرتے ہیں کہ مقدس کتاب کی تعلیم دیتے ہوئے بچوں کو پیٹنا برا نہیں بلکہ اچھا ہے۔ حکومت ان کے اثر و رسوخ سے خوفزدہ رہتی ہے۔“

اسی طرح بھارت کے دینی مدارس اور سکولوں میں بھی بچوں کو مارنا ایک عام سی بات ہے۔ بھارت میں بھی ایسی کئی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، جہاں بچے کو قرآن زبانی یاد نہ کرنے کی وجہ سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here