پوپ فرانسس کی عراق میں تباہ شدہ گرجا گھروں میں عبادت

ایڈمن
ایڈمن
10 Min Read

پوپ فرانسس عراق کے تاریخی دورے کے تیسرے روز آج شمالی عراق کے ان حصوں کا دورہ کر رہے ہیں جن پر کبھی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا قبضہ تھا۔

جب سنہ 2014 میں دولتِ اسلامیہ نے اس خطے پر تسلط جما لیا اور انسانی حقوق کی پامالی کی تو متاثر ہونے والوں میں عراق کی مسیحی برادری بھی شامل تھی۔

پوپ نے قراقوش میں مسیحیوں سے ملنے سے پہلے شدت پسند تنظیم کے سابق گڑھ موصل میں برباد شدہ کلیساو¿ں کے درمیان عبادت کی تھی۔

پوپ فرانسس اربیل میں اجتماعی دعائیہ تقریب کے لیے بھی پہنچ چکے ہیں اور کورونا وائرس کے خدشات کے باوجود ہزاروں افراد اس تقریب میں شریک ہیں۔

خدشات ہیں کہ اجتماعی عبادت کی یہ تقریب کورونا وائرس پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔

عراق میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران کووڈ 19 کے انفیکشنز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کیتھولک چرچ کے 84 سالہ رہنما اور ان کے وفد کے ارکان ویکسین حاصل کر چکے ہیں تاہم عراق میں ویکسین کی پہلی کھیپ گذشتہ ہفتے ہی پہنچی ہے۔

جمعے کو شروع ہونے والا چار روزہ دورہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری کووڈ وبا کے آغاز کے بعد سے پوپ کا پہلا بین الاقوامی دورہ ہے اور عراق کا دورہ کرنے والے وہ پہلے پوپ ہیں۔

اربیل پہنچنے کے بعد پوپ کا عراق کے کردستان خطے کے سربراہ نوشیروان برزانی نے استقبال کیا۔

اس کے بعد انھوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے موصل کا سفر کیا جہاں انھوں نے دولتِ اسلامیہ سے جنگ کے متاثرین کے لیے دعا کی خاطر چرچ سکوائر کا دورہ کیا۔ اس جنگ میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے تھے۔

سکوائر میں موجود چار گرجا گھروں کے کھنڈرات کے درمیان خطاب کرتے ہوئے پوپ نے کہا کہ عراق اور وسیع مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسیحیوں کی جلاوطنی نے ‘نہ صرف مذکورہ افراد اور برادریوں کو بلکہ اس معاشرے کو بھی ناقابل بیان حد تک نقصان پہنچایا ہے جسے وہ پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔’

پوپ فرانسس نے تاریخی خطے میسوپوٹیمیا کا ذکر کرتے ہوئے جو موصل سمیت جدید عراق کے بیشتر حصے پر مشتمل تھا، کہا ‘یہ کتنا ظلم ہے کہ اس ملک کو، تہذیب کے گہوارے کو، ان قدیم عبادت گاہوں سمیت، اس قدر مظالم اور صدموں کے سلسلے سے دوچار ہونا تھا۔ یہ خطہ تباہ ہوا اور ہزاروں افراد جن میں مسلمان، مسیحی، یزیدی اور دیگر قومیں شامل تھیں انھیں یا تو زبردستی بے گھر کیا گیا یا ا±نھیں ہلاک کر دیا گیا۔’

‘تاہم آج ہم اپنے اس یقین کی ایک بار پھر تجدید کرتے ہیں کہ ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک قاتلانہ جذبے سے زیادہ پائیدار ہے، ہماری امید ہمارے ہاں موجود نفرت سے زیادہ طاقتور ہے، اور یہ کہ امن جنگ سے زیادہ طاقتور ہے۔’

نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے مسیحی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی تھی، مذہبی مجسموں کے سر قلم کر دیے تھے اور انھیں بم دھماکوں سے تباہ کیا تھا۔ ہزاروں مسیحی دولتِ اسلامیہ کے زیرِ قبضہ آنے والے علاقوں سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے اور جو باقی بچے، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کر لیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ یا تو جزیہ ادا کریں، اسلام قبول کریں، شہر چھوڑ دیں یا موت کا سامنا کریں۔

مشرق وسطیٰ کے اخبار دی نیشنل کی خبر کے مطابق پوپ کے دورے کے لیے چرچ سکوائر پر نصب کی گئی ایک صلیب کو خطے بھر کے گرجا گھروں سے بچائی گئی لکڑی کی کرسیوں سے تیار کیا گیا تھا۔

قراقوش کے قریبی قصبے میں پوپ نے چرچ آف دی امیکیولیٹ کنسیپشن نامی قدیم گرجا گھر میں مسیحیوں سے ملاقات کی جسے کبھی دولت اسلامیہ کے جنگجوو¿ں نے نذرِ آتش کر دیا تھا۔ اس کلیسا کو اب بحال کر دیا گیا ہے۔

پوپ کی آمد سے قبل 33 سالہ یسریٰ مبارک نے کہا ‘میں اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتی، یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جو دوبارہ دہرایا نہیں جائے گا۔’ وہ اس وقت تین ماہ کی حاملہ تھیں جب سات سال قبل اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ اپنا گھر چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوئی تھیں۔

یسریٰ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ‘یہ ایک بہت ہی مشکل سفر تھا۔ ہم صرف وہی لباس لے کر بھاگے تھے جو ہم نے پہنے ہوئے تھے، (جب ہم واپس آئے) کچھ نہیں بچا تھا لیکن ہمارا واحد خواب تھا کہ واپس آ جائیں اور آج ہم یہاں ہیں اور پوپ آ رہے ہیں۔’

رومن کیتھولک چرچ کے رہنما اربیل میں سٹیڈیم میں گاڑیوں کے قافلے میں آئے مگر پھر اپنی مخصوص گاڑی پوپ موبائل میں سوار ہوگئے جس سے وہ عام لوگوں کو اپنا دیدار کرا سکتے ہیں۔

جمعے کے روز بغداد پہنچنے کے بعد سے پوپ فرانسس نے تشدد اور انتہا پسندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ عراقی مسیحی برادری کو مکمل حقوق، آزادی اور ذمہ داریوں کے حامل شہریوں کی حیثیت سے زیادہ نمایاں کردار حاصل ہونا چاہیے۔

سنیچر کو مقدس شہر نجف میں آیت اللہ العظمیٰ علی سیستانی کے ساتھ ایک ملاقات میں پوپ نے اس پیغام کو دہراتے ہوئے کہا کہ مسیحیوں کو بھی دوسرے عراقیوں کی طرح امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا حق ہونا چاہیے۔

لاکھوں شیعہ مسلمانوں کے 90 سالہ بزرگ روحانی پیشوا السیستانی عموماً بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں لیکن ا±نھوں نے تقریباً 50 منٹ تک پوپ سے ملاقات کی۔ دونوں دو بڑے مذہبی رہنما چہرے پر ماسک کے بغیر بات چیت کرتے رہے۔

اس کے بعد پوپ نے قدیم شہر ‘ا±ر’ کا دورہ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیغمبر ابراہیم کی جائے پیدائش ہے، جو یہودیت، عیسائیت اور اسلام، تینوں مذاہب کے بزرگِ اعلیٰ تسلیم کیے جاتے ہیں۔

عراق کو مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد سے سخت نقصان پہنچا ہے جس میں اقلیتوں کے خلاف اور شیعہ سنی مسلمانوں کے درمیان تصادم بھی شامل ہے۔

عراق کی مسیحی برادری دنیا کی قدیم ترین مسیحی برادریوں میں سے ایک ہے اور گذشتہ دو دہائیوں میں اس کی تعداد 14 لاکھ سے گھٹ کر تقریباً ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جو ملک کی آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ بنتا ہے۔

سنہ 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے لیے کیے گئے امریکی حملے کے بعد سے بہت سے لوگ اس تشدد سے بچنے کے لیے بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔

عراق میں سنہ 2019 میں مذہبی آزادی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ مسیحیوں کے ساتھ ساتھ سنی مسلمانوں نے بھی شیعہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں چوکیوں پر ہراساں کیے جانے کی اور تعلیم میں کچھ امتیازی سلوک کی شکایت کی ہیں۔

جو خطہ آج عراق ہے، یہاں کے لوگوں نے پہلی صدی عیسوی میں مسیحی مذہب اختیار کیا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق مسیحی رہنماو¿ں کا اندازہ ہے کہ عراق میں ڈھائی لاکھ سے بھی کم مسیحی باقی رہ گئے ہیں، جن کی سب سے بڑی آبادی کم از کم دو لاکھ ملک کے شمال میں واقع نینوا اور کردستان خطے میں آباد ہے۔

ان میں سے تقریبا 67 فیصد کلدانی کیتھولک ہیں، جن کے ایسٹرن رائٹ چرچ نے اپنی الگ روایات کو برقرار رکھا ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ پاپائے روم کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔ مزید 20 فیصد مشرق کے اسیریئن چرچ کے پیروکار ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عراق کا قدیم ترین چرچ ہے۔

باقی سیریاک آرتھوڈوکس، سیریاک کیتھولک، آرمینیائی کیتھولک، آرمینیائی اپوسٹولک، انگلیکن ، ایونجلسٹس اور پروٹسٹنٹ فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment