بلوچ، سندھی، پنجابی اور پشتون قوم پرستوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی طرف سے زبانوں کے بل کو زیر بحث لانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اس کو صحیح سمت میں درست اقدام سے تعبیر کیا۔
بیس رکنی کمیٹی اس بل کو زیر بحث لائے گی، جو پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے اقلیتی رکن قومی اسمبلی کھیئل داس کوھستانی کی طرف سے جمع کرایا گیا ہے۔ کوھستانی نے اس بل کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیاکو بتایا، ”بہتر برسوں سے ہماری زبانوں کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ مثال کے طور پر سندھی ایک قدیم زبان ہے۔ ہماری ثقافت کے تانے بانے موہن جو داڑو سے ملتے ہیں لیکن سندھی یہاں قومی زبان نہیں ہے جب کہ بھارت میں اس کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ میری پارٹی نے اپنے منشور میں لکھا تھا کہ علاقائی زبانوں کو فروغ دیا جائے گا، تو اب ہم دیکھیں گے کہ کمیٹی میں اس بل کی کون کون حمایت کرتا ہے۔“
بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور نیشنل پارٹی کے سکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے میڈیا کو بتایا،”ہم نے اپنے دور حکومت میں بلوچستان میں پانچ سے زائد زبانوں کو سرکاری قرار دیا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب اگر حکومت وفاقی سطح پر ایسا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو اس سے وفاق مضبوط ہو گا اور چھوٹی قوموں میں احساس بیگانگی ختم ہوگا اور وہ پہلے سے زیادہ اپنے آپ کو اس وفاق کا حصہ سمجھیں گے جہاں مختلف قومیتیں رہتی ہیں اور ان کا اپنا ایک تہذیب و تمدن ہے۔“
پنجاب میں ماں بولی کے دن کے موقع پر حال ہی میں کئی تقریبات میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ پنجابی میں بچوں کو ابتدائی تعلیم دی جائے۔ پنجابی قوم پرستوں نے بھی اس حکومتی اقدام کو سراہا ہے۔ پنجاب نیشل پارٹی کے صدر احمد رضا وٹو نے اس اقدام کو مثبت قرار دیا، ”ہمارا یہ کہنا ہے کہ بچوں کو بنیادی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دی جانی چاہیے اور یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یونیسکو کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔ جب انہیں اجنبی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ تو اگر حکومت یہ کوشش کرتی ہے تو ہم اس کوشش کا بھر پور ساتھ دیں گے۔“
پاکستان میں زبان کے مسئلے پر ماضی میں کافی حد تک کشیدگی رہی ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پہلی بار پاکستان کے وفاق اور بنگالیوں کے درمیان اس وقت دوری پیدا ہوئی جب بانی پاکستان قائد اعظم نے ڈھاکہ میں یہ کہا کہ اردو ہی قومی زبان ہوگی۔ ستر کی دہائی میں سندھ میں بھی لسانی فسادات کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اردو سندھی تنازعہ تھا۔ کچھ ناقدین کے خیال میں حکومت نے ایسا کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔
معروف سندھی قوم پرست رہنما اور چیئرمین جئے سندھ محاذ عبدالخالق جونیجو کے خیال میں ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا،”گو کہ یہ اچھا قدم ہے اور بہت دیر کے بعد حکومت کو خیال آیا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ کامیاب ہو گا کیونکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ آج بھی وہ ہی مائنڈ سیٹ رکھتی ہے، جو اس کا کئی دہائیوں سے ہے اور اس کی طرف سے مزاحمت ہوگی۔“
ان کا کہنا تھا کہ زبان کے مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیاگیا،”بنگالیوں نے قیام پاکستان کے فورا بعد اپنی زبان کے دفاع کے لیے جدوجہد شروع کی تھی لیکن ہم نے پہلے انہیں مشتعل کیا اور بعد میں پھر کسی مرحلے پر ہم نے بنگالی کو قومی زبان بھی بنایا لیکن تب تک دیر ہوگئی تھی اور تلخیاں بہت بڑھ گئیں تھی۔ اب اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا جائے گا تو اس کی حمایت کی جائے گی۔ تاہم ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا۔“
ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی قانون سازی میں بہت سی پیچدگیاں بھی ہوتی ہیں، جن پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔ معروف قانون دان اور پشتون دانشور لطیف آفریدی کے خیال میں اس بل کی مخالفت نہ صرف کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں سے آئے گی بلکہ پنجاب بھی اس کی مخالفت کرے گا،”ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائی اور اس بار بھی اس کی مخالفت ہو گی۔ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی اس کی مخالفت ہوگی کیونکہ فوج میں اردو مختلف قومیتوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے اور فوج کسی صورت بھی نہیں چاہے گی کہ اس رابطے کی زبان کو ختم کیا جائے۔“
ان کا کہنا تھا کہ آئین میں زبانوں کے حوالے سے متضاد شقیں موجود ہیں،”ایک طرف ہمارے آئین کا آرٹیکل انچاس یہ کہتا ہے کہ مادری زبان کے اسکرپٹ کو فروغ دیا جائے اور دوسری طرف اردو کو بھی سرکاری زبان قرار دیتا ہے۔ تو ان دونوں چیزوں کو چلانا بہت مشکل ہے۔“