پاکستان اور انڈیا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے

0
269

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور ملک کے شمالی حصوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔

راولپنڈی، پشاور، مظفرآباد، گلگت ایبٹ آباد سمیت دیگر شہروں سے زلزلے کی اطلاعات ہیں۔

امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق ریکٹر سکیل پر اس کی شدت 5.9 تھی، اس کا مرکز تاجکستان کے علاقے مرغوب سے 35 کلومیٹر دور تھا اور اس کی گہرائی نوے کلومیٹر سے زیادہ تھی۔

تاہم پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر چھ اعشاریہ چار ریکارڈ کی گئی ہے اور ادارے نے اس کی گہرائی 80 کلو میٹر بتائی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کے جھٹکے تقریباً پورے ملک میں محسوس کیے گئے ہیں جبکہ جبکہ شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخواہ، اسلام آباد، لاہور میں اس کی شدت زیادہ تھی۔

دلی میں بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق دلی میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ کشمیر، پنجاب اور دلی سمیت شمالی انڈیا کے کئی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ انڈیا میں حکام کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزے کی شدت 6.3 تھی۔

محکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر خالد ملک نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ زلزلے کا مرکز اسلام آباد سے 472 کلو میٹر دور تاجکستان میں تھا۔

‘پاکستان سے کافی دور تھا جس وجہ سے ہم توقع کر رہے ہیں کہ اس سے زیادہ کوئی نقصاں نہیں ہوا ہوگا۔ اگر اس کا فاصلہ کم ہوتا تو اتنے زیادہ دورانیہ اور 6.4 کی شدت سے نقصاں ہوسکتا تھا’۔

صوبہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی پی ڈی ایم اے کے مطابق ان کے کنڑول روم کو کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی اطلاع ہماری ہیلپ لائن 1700 پر دیں۔’

مانسہرہ کے رہائشی 70 سالہ سردار اسلم کا کہنا تھا کہ یہ طویل دورانیہ کا زلزلہ تھا۔ ‘میرا تو خیال ہے کہ یہ کوئی 35 سیکنڈ تک رہا تھا۔ مجھے تو ایسے لگ رہا تھا کہ زلزلہ ختم ہونے ہی کو نہیں آرہا ہے۔’

جب زلزلہ محسوس ہو رہا تھا تو میرے ذہن میں ایک دم آٹھ اکتوبر 2005 کے مناظر آرہے تھے۔ مگر شکر ہے کہ ہر طرح کی خیر ہوئی ہے۔’

اسلام آباد کے رہائشی پچاس سالہ مقبول حسین کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں تو یہ شدید زلزلہ تھا۔ سب لوگ باہر بھاگ رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کسی نے چپل پہنے ہوئے تھے اور کوئی ننگے پاو¿ن تھا۔ ماو¿ں نے اپنے بچے اٹھائے ہوئے تھے اور کوئی اپنے بزرگوں کو سنبھال رہا تھا۔

‘وہ تو شکر ہے کہ اس کی زیادہ شدت نہیں تھی مگر زمین کو 30 سیکنڈ تک جھٹکے دیتا رہا ہے، اگر زیادہ شدت ہوتی تو پتا نہیں کیا ہوجاتا۔’

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور عورتیں اور بچے خوف کے باعث چیخنے لگے۔

شہر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات میں نئی دراڈیں پڑ گئی ہیں اور یہ کہ لوگ بھاگ کر تنگ گلیوں سے نکل کر کھلی جگہوں کی جانب جا رہے تھے۔

بعض ایسے افراد جنہوں نے سنہ 2005 کے زلزلے کے بعد سی جی آئی شیٹس کے شیلٹر بنا رکھے ہیں انھوں نے خوفزدہ ہو کر کنکریٹ کے گھروں میں رہنے والوں کو آج رات کے لیے اپنے گھروں پر قیام کرنے کو کہا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور عورتیں اور بچے خوف کے باعث چیخنے لگے۔

شہر کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات میں نئی دراڈیں پڑ گئی ہیں اور یہ کہ لوگ بھاگ کر تنگ گلیوں سے نکل کر کھلی جگہوں کی جانب جا رہے تھے۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج کے مطابق زلزلے کے جھٹکوں نے گلگت بلتستان کے طول و عرض میں خوف و ہراس پیدا کردیا تھا۔ لوگ سخت سردی کی وجہ سے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ جس میں بیماروں اور دیگر لوگوں کے لیئے مسائل پیدا ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت ابتدائی اطلاعات کے مطابق ابھی تک کسی بڑے نقصاں کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کا علاقہ پھیلا ہوا ہے۔ کئی علاقوں میں رسائی حاصل کرنا وقت طلب ہوتا ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں اس وقت انتظامیہ،محکمہ صحت، پولیس اور ڈیزاسیٹر کا محکمہ فعال ہے۔

سری نگر سے ماجد جہانگیر نے بتایا کہ وادی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی اس ٹویٹ سے بھی وہاں زلزلے کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سنہ دو ہزار پانچ کے بعد آنے والے زلزلوں میں سے کسی نے آج تک مجھے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور نہیں کیا۔ میں نے کمبل دبوچا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ زمین لرز رہی تھی اور مجھے اپنا فون لے جانا یاد نہیں رہا اس لیے زلزلے کے بعد بارے میں ٹویٹ نہیں کر سکا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here