سنگر نے اپنی پُر کٹھن جدوجہد کے 12سال کی مسافت طے کرلی

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read


اداریہ سالنامہ سنگر

ایک واضح سائنسی انقلابی نظریے اور علم وشعور سے آراستہ ایک چھوٹی سی اقلیت بہت بڑی اکثریت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ تبدیلی شعور اور فکروخیال سے تعلق رکھتی ہے جبکہ انسانی اعمال ایک خاص شعور اور ذہنی سرگرمی کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں، لہٰذا شعوری و فکری تبدیلی سماجی تبدیلی کی بنیاد ہے۔اسی لئے کسی بھی سیاسی جدوجہد کے ذرائع میں نظریاتی وشعوری جدوجہد انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اس ضمن میں ابلاغ کا شعبہ ایک موثر محاذ قرار دیا جاتا ہے، جہاں نہ صرف تبدیلی، آزادی اور انقلاب کے نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے بلکہ مخالف منفی قوتوں کے لغو پروپیگنڈے اور عوام دشمن نظریات و فریب کاریوں کا موثر طور پر جواب بھی دیا جاتا ہے، اسی لئے کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے ابلاغ کے شعبے کو فعال بنانے پر بے پناہ زور دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ جن میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا قابل ذکر ہیں کئی سمتوں اور پہلوؤں سے تحریک کو منظم بناتے ہیں،جن میں نظریاتی تربیت و تعلیم کے علاوہ عوام اور تحریک کے مابین رشتوں کو باہم مضبوط ومربوط بنانا بھی شامل ہے۔


”سنگر“کے بارے میں بلوچ سیاسی وعوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ غیر موزوں حالات کے باوجود اس ادارے نے کلمہ حق کی ادائیگی سے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کی، اور اس دوران بلوچ قومی سوال کے گرد جنم لینے والے تنازعے کے تاریخی حقائق اور اس کے حقیقی حل کے حوالے سے بلوچ سماج کی خواہشات، امنگوں اور رائے سے دنیا کو با خبر رکھنے کا فریضہ ادا کرتا رہا۔صرف حقائق سے آگاہی ہی نہیں دی بلکہ سماجی و سیاسی نظریاتی شعور اور ذہنی وسعتوں کو بھی بڑھایا ہے، جو قاری کو ایسے غورو فکر کی طرف مائل کرتا ہے جو انقلابی عمل پر گہرا یقین رکھتا ہو، اس طرح یہ تنظیم کی اہمیت و فعالیت کو اجاگر کرتا ہے، اور انقلابی تنظیم و تحریک سے گہرے عوامی و سماجی رشتوں کے تقاضوں کو ابھارتا ہے، اس کے علاوہ قومی جدوجہد کی وہ حاصلات جو سیاسی کارکنوں اور سماج کو نفسیاتی توانائی اور مسرت و اطمینان بخشتے ہوئے انہیں مزید حوصلہ مند و فعال بناتی ہیں کو ”سنگر“ نے زمانے کے سامنے لایا ہے، جبکہ ادارے نے مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے سوال کو اجاگر کرنا اپنی اولین ترجیح اور بنیادی فریضہ تصور کیا ہے۔


مقبوضہ بلوچ ریاست گزشتہ ادوار کی طرح اس سال بھی پاکستانی ظلم و بربریت کی تصویرپیش کرتی رہی۔ جہاں قابض ریاست کی جانب سے پورے خطے میں فوجی آپریشن، بلوچ فرزندوں کی شہادت، جبری گمشدگی کے واقعات،دوران آپریشن عمر اور جنس میں تفریق نہ کرتے ہوئے لوگوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنانا گھروں میں لوٹ مار اورانہیں نذرآتش کرنا، مقامی افراد کو جبری طور پر ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سال قابض ریاست نے بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی پالیسی میں شدت لائی جس کی وجہ سے درجنوں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئیں۔ ایک جانب ریاستی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب مسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی کارروائیاں بھی جاری رہیں جن میں ریاست کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑا۔
ان تمام واقعات،رپورٹس کو سنگر نے بلوچ قوم کے سامنے لانے کے سوا دنیا بھر میں اجا گر کیا۔


آج سنگین کیفیت سے بلوچستان دوچار ہے،جہاں بلوچ قومی مسئلے میں پیدا ہونے والی شدت کے نتیجے میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے،یہاں بلوچ عوام اور دنیا کو بلوچستان کے زمینی و معروضی حقائق سے آزادانہ و غیر جانبدار طور پر آگاہی کے راستے میں ریاستی سطح پر مختلف قسم کی رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہی ہیں اور سلسلہ ہنوز جاری ہے، بلوچستان میں جس نے بھی اپنی آزادانہ و غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی اُسے زندگی سے ہاتھ دھونے سمیت مصائب کا سامنا کرنا پڑتاہے،جس کے نتیجے میں آج ذرائع ابلاغ پر مختلف قانونی بندشوں کے علاوہ سیلف سنسر شپ نافذ نظر آتی ہے اور میڈیا حکمران و بالادست قوتوں کی پالیسیوں و مفادات کی ترجمانی اور پرو پیگنڈے کا محاذ بن چکا ہے۔ بلوچ دانشوروں،نظر یاتی کارکنوں و صحافیوں نے بندشوں و رکاوٹوں کے باوجود بلوچستان کے زمینی حقائق اور یہاں جاری بنیادی قومی،سیاسی و جمہوری حقوق کی پامالی اور تحریک کے اثرات و نتائج سے آگاہی کیلئے بھر پور کو ششیں کی، یوں سنگر نے 12برس کا کٹھن سفر طے کیا،ادارہ’سنگر“کا کردار سب سے نمایاں تصور کیا جاتا ہے۔
ادارہ سنگر کے کردار نے حقائق سے آگاہی کے علاوہ بلوچ سماج اور تحریک کے رشتوں کو باہم مزید مضبوط و مربوط بھی بنایا ہے اور نوجوانوں، طلباء سیاسی کارکنوں و عوامی حلقوں کی نظریاتی و سیاسی تربیت میں اس ادارے کا کردار ناقابل نظر انداز ہے،جبکہ اپنی آفاقی سائنسی و انقلابی فکری بنیادوں کے باعث سنگر صرف بلوچ قوم ہی نہیں بلکہ خطے و دنیا بھر کی تمام محکوم اقوام اور استحصال زدہ مظلوم طبقات اور ان کی نجات کیلئے سرگرم جہد کاروں کیلئے بھی باعث کشش تصور کیا جاتا ہے،جس کا سبب اس ادارے کی طرف سے دنیا کے کسی بھی مقام پر ہونے والی ظلم و زیادتی کو پوری شدت سے محسوس کرنا اور اس کیخلاف آواز بلند کرنا ہے، اسی وسیع لنظر انقلابی فکری کردار کے باعث سنگر کو بھی بندشوں اور ریاست کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں کا آج تک سامنا کرنا پڑا رہا ہے، مگر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود یہ ادارہ آج بھی اپنے صحافتی،علمی و نظریاتی کردار کو تند ہی سے ادا کرنے کیلئے مصروف عمل ہے، اور اس کی مزید بہتری اور وسعت کا خواہاں ہے،جس کیلئے ضروری ہے کہ قارئین اور ہر قسم کے جبرو استحصال کے خاتمے کیلئے سرگرم حلقے ادارے کی حوصلہ افزائی اور حمایت و تعاون جاری رکھیں۔


علاوہ ازیں مقامی و بین الاقوامی سیاسی، اقتصادی و سماجی ایشوز کو اجاگر کرنے کے ساتھ ادارے نے بلوچ فن وادب اور ثقافتی وتہذیبی موضوعات کو بھی جگہ دی ہے، کیونکہ یہ تمام قومی شناخت کے مختلف اجزاء ہیں، اور ایک ایسے وقت میں جب بلوچ قومی شناخت کی برقراری کے سوال کو سنگین چیلنجز در پیش ہیں ”سنگر“نے اسے عصری تقاضوں کے مطابق زندہ رکھنے کی ہر سعی کی ہے۔

Share This Article
Leave a Comment