کوئٹہ : ہزارہ متاثرین کا دھرنا ختم، لاشوں کی تدفین کا اعلان

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read

پاکستان کی وفاقی حکومت اور کوئٹہ میں دھرنا دینے والے ہزارہ برادری کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد انھوں نے دھرنا ختم کرنے اور مقتولین کی تدفین کا اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں چھ روز قبل شروع ہوا تھا۔

حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہلاک ہونے والے کان کنوں کی لاشوں کو دھرنے کے مقام سے ہزارہ ٹاﺅن منتقل کیا گیا۔ میتوں کی تدفین سینیچر کو صبح دس بجے ہزارہ ٹاو¿ن قبرستان میں کی جائے گی۔

جمعے کی شب وفاقی حکومت کے وزرا اور کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھرنے کے منتظمین سے ایک بار پھر مذاکرات کیے جس کے بعد دھرنے کے منتظمین پر مشتمل شہدا کمیٹی نے اعلان کیا کہ ان کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں اور اس سے متعلق نوٹیفکیشنز پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔

قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے دھرنے کے مقام پر گفتگو میں بتایا کہ جیسے ہی مقتولین کی تدفین ہو گی وزیراعظم کوئٹہ کے لیے روانہ ہوں گے اور آرمی چیف بھی کوئٹہ جائیں گے اور لواحقین سے تعزیت کریں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ میتوں کی تدفین پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے اور اب وزیراعظم کوئٹہ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ابھی بحرین سے ملک واپس پہنچے ہیں وہ ابھی وزیراعظم کے ہمراہ جائیں گے یا نہیں انھیں معلوم نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ وزیراعظم آج یا کل کوئٹہ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دیر تو ہو گی ہے کہ اچھی بات ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو گیا ہے اور اس کا کریڈٹ دھرنا دینے والوں کو جاتا ہے۔

وفاقی وزیر علی زیدی نے میڈیا سے گفتگو میں ہزارہ برادری کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ہزارہ متاثرین کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ بات چیت میں مچھ واقعے کے حوالے سے جے آئی ٹیم کی تشکیل کا مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین کیے جانے کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا گیا۔

علی زیدی کا کہنا تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا گیا ہے۔ ضیا اللہ اس کی سربراہی کریں گے اسمبلی اور حکومت کے سینئر افسران اور ڈی آئی جی رینک کا پولیس افسر ہو گا اور شہدا کمیٹی کے دو اراکین بھی ہوں گے یہ کمیٹی مہینے میں ایک مرتبہ ضرور ملے گی اور جو بھی تحقیقات ہو رہی ہیں انھیں مانیٹر کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام فیصلے لوگوں کی مشاورت سے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے سکیورٹی پلان پر نظرثانی کی جائے گی۔

وفاقی وزیر کے مطابق مچھ واقعے میں قتل ہونے والوں کے لواحقین میں سے جو بھی طالب علم ہیں ان کے لیے سکالر شپ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے جام کمال نے کہا کہ وہ شکرگزار ہیں کہ لواحقین نے میتوں کی تدفین کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے دھرنا نہیں کہیں گے کیونکہ ہزارہ برادری نے اپنے جذبات کا اظہار ایک مثالی طریقے سے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس نظام میں انصاف نہ ہو وہاں برکت نہیں ہوتی اور یہ دھرنا انصاف کے لیے دیا گیا۔

مذاکرات کے لیے جانے والے وزرا میں زلفی بخاری بھی شامل تھے۔

مقامی میڈیا پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق دھرنے کے شرکا دھرنے کے مقام سے منتشر ہو رہے ہیں اور مقتولین کی میتوں کو بھی وہاں سے لے جایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب دارالحکومت اسلام آباد کے ڈی چوک پر دیے جانے والا دھرنا بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق کراچی میں 20 سے زائد مقامات پر مچھ متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجاج اور دھرنے جاری رکھے جو اب ختم کیے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل جمعے کی صبح پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہزارہ برادری مچھ میں قتل ہونے والے اپنے 11 افراد کی تدفین کر دیں تو وہ آج ہی کوئٹہ جائیں گے مگر ’بلیک میلنگ‘ میں نہیں آئیں گے۔

اسلام آباد میں سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مچھ واقعے کے بعد انھوں نے فوراً وزیرِ داخلہ کو اور پھر دو وفاقی وزرا کو یہ بتانے کے لیے لواحقین کے پاس کوئٹہ بھیجا کہ حکومت پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ’میں نے انھیں یقین دلایا کہ ہم لواحقین کا پوری طرح ان کا خیال رکھیں گے کیونکہ ان کے کمانے والے ہلاک ہوئے ہیں اور انھیں معاوضہ دیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کل تک حکومت لواحقین کے سارے مطالبات مان چکی ہے، اب ان کا مطالبہ ہے کہ وزیرِاعظم آئیں تو دفنائیں گے۔‘

انھوں نے کہا ’ہم نے انھیں یہ پیغام پہنچایا ہے کہ جب آپ کے سارے مطالبات مان لیے ہیں، تو یہ مطالبہ کرنا کہ ہم وزیرِ اعظم کے نہ آنے تک نہیں دفنائیں گے، تو کسی بھی ملک کے وزیرِ اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس طرح ہوا تو کل کو ہر کوئی ملک کے وزیرِ اعظم کو بلیک میل کرے گا جس میں ان کے مطابق سب سے پہلے ملک کی اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔

’میں نے انھیں کہا ہے کہ جیسے ہی آپ انھیں دفنائیں گے تو میں کوئٹہ آو¿ں گا اور لواحقین سے ملوں گا۔ آج اس پلیٹ فارم سے دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ آج دفنائیں گے تو میں آج کوئٹہ جاو¿ں گا۔‘

عمران خان نے کہا کہ یہ مطالبہ ناقابلِ فہم ہے کہ وزیرِاعظم آئے گا تو دفنائیں گے۔

اگرچہ وزیر اعظم نے ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ کئی سانحات کے بعد ان کے پاس گئے بھی ہیں اور انھوں نے ان کا خوف بھی دیکھا ہوا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں پر شاید سب سے زیادہ ظلم ہوا ہے، ان کو ٹارگٹ کیا گیا اور خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد ان پر جس طرح ظلم کیا گیا، انھیں قتل کیا گیا، کسی اور کمیونٹی پر اس طرح کا ظلم نہیں ہوا۔‘

انھوں نے اس واقعے کو انڈیا کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سازش کے تحت ملک میں اہلِسنت اور اہلِ تشیع علما کو قتل کر کے ملک میں انتشار پھیلانے کا منصوبہ تھا، جس سے ان کے مطابق وہ مارچ میں ہی اپنی کابینہ کو خبردار کر چکے تھے۔

انھوں نے کہا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے چار بڑے واقعات روکے مگر اس کے باوجود ایک بڑے سنی عالم کا کراچی میں قتل کیا گیا اور حکومت نے بڑی مشکل سے یہ فرقہ وارانہ تفریق کی آگ بجھائی۔

Share This Article
Leave a Comment