بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ کیخلاف نیب تحقیقات کی منظوری

0
335

بلوچستان کے دو سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ ثنا اللہ زہری اور ڈاکٹرمالک بلوچ اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے ریڈار پر آ گئے ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق منگل کو نیب چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی زیرصدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بلوچستان کے دونوں سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحقیقات کی منظوری دی گئی۔

نیب کے ایک سینئر عہدیدار کا کہناتھاکہ ثنااللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک کے خلاف ‘اختیارات کے ناجائز استعمال’ کے سلسلے میں انکوائری شروع کی جارہی ہے۔

نیب کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اجلاس میں مختلف شخصیات کے خلاف 15 انکوائریوں کی منظوری دی گئی جن میں بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اور ثنا اللہ زہری اور سابق سکریٹری محکمہ داخلہ کوئٹہ اکبر درانی شامل ہیں۔

اجلاس میں نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر، پراسیکیوٹر جنرل (احتساب) سید اصغر حیدر، ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) ظاہر شاہ اور دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔

نیب بورڈ نے قومی خزانے کو 49کروڑ 90 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا کر ذاتی مفادات کے لیے سرکاری فنڈز کے ناجائز اور غلط استعمال پر عمران علی یوسف اور دیگر کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دے دی، ایک اور ریفرنس کوئٹہ کے بورڈ آف ریونیو کے سابق اراکین سرور جاوید اور شہباز خان مندوخیل کے خلاف غیر قانونی طور پر دلشاد اختر کو سرکاری اراضی الاٹ کرنے کے لیے منظور کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 6کروڑ 48لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

اجلاس میں مختلف افراد کے خلاف آٹھ تفتیشوں کی منظوری دی گئی جس میں سابق رکن قومی اسمبلی مدثر قیوم نیہرا، سابق رکن قومی اسمبلی اظہر قیوم نیہرا، سابق ڈائریکٹر فوڈ پنجاب محمد آصف بلال، ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ پنجاب احمد شیر، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی انتظامیہ، بلوچستان انٹیگریٹڈ واٹر ریسورس منیجمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ پراجیکٹ؛ سرکاری ٹھیکیدار حاجی ظریف حسین زئی، نوشکی ضلع کے محکمہ ریونیو کی انتظامیہ، ڈیرہ غازی خان کی ٹیچنگ ڈی ایچ کیو ہسپتال کے عہدیداران اور لاہور کے میسرز عبداللہ شوگر ملز لمیٹڈ شامل ہیں۔

اجلاس میں رکن پنجاب اسمبلی اور پنجاب پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو سیف الملوک کھوکر، سابق وزیر محکمہ تعلیم کوئٹہ رحیم زیارتوال، رکن بلوچستان اسمبلی جمعہ خان، سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری نصیب اللہ بازئی، میسرز اسٹارٹیک ٹریڈرز کے طارق مرتضیٰ، سابق رکن صوبائی اسمبلی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سابق رکن مہر اعجاز احمد مچلانہ، سابق رکن صوبائی اسمبلی اور لیاقت پور کے محکمہ ریونیو کے اہلکار رئیس ابراہیم خلیل احمد، سابق چیئرمین پاکستان ریلوے عارف عظیم، جنرل منیجر گیپکو، گوجرانوالہ محسن رضا، سابق اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر (محصول) گجرات مسز رانی حفزہ کنول اور میسرز عبداللہ شوگر ملز کے خلاف بھی انکوائری کی منظوری دی گئی۔

نیب بورڈ نے اختر حسین، سبینہ سیماب، شہناز قمر، مقصود احمد، احسن سرور بٹ اور دیگر کے خلاف انکوائریوں کو قانون کے مطابق مزید کارروائی کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھیج دیا ہے۔

چیئرمین نیب نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ میگا بدعنوانی کے مقدمات قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ نیب نے قومی خزانے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ریکارڈ 714 ارب روپے جمع کروائے ہیں اور مشہور بین الاقوامی اداروں نے اس کی کارکردگی کو سراہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ نیب کی کسی جماعت ، گروپ اور فرد سے کوئی وابستگی نہیں ہے، بلکہ ریاست پاکستان سے ہے۔

جسٹس اقبال نے تمام علاقائی بیوروز کو ہدایت کی کہ وہ ہر فرد کی عزت نفس کو یقینی بناتے ہوئے انکوائری اور تحقیقات کریں کیونکہ نیب انسان دوست ادارہ ہے۔

ویسے نیب کے حوالے سے یہ بات کنفرم ہے کہ اسے مکمل طورپر اسٹیبلمنٹ کنٹرول کرتی ہے اوروہ کسی بھی قوانین سے مبرا ہے اور بس اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر اسکی عناد پر مبنی انتقامی کارروائیوں کو سرانجام دیتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here