……پاھار……
بلوچستان وسندھ میں بڑھتی جبری گمشدگیوں کیخلا ف آزادی لانگ مارچ
ماہِ نومبر میں 50فوجی آپریشنز میں 24 افرادلاپتہ،1لاش برآمد،100 گھرنذرآتش
سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
قابض پاکستان نے اپنی اندرونی تباہ کاریوں کے باوجود مقبوضہ بلوچستان میں جبر کی انتہا کیا ہوا ہے۔ نومبر2020 کا مہینہ بھی گزشتہ اوقات سے کچھ مختلف نہ تھا،پاکستانی فوج کی زمینی و فضائی آپریشنز مقبوضہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں جاری رہا،خاص کر سائیجی،دڑامب،مزن بند اور دشت کے کئی علاقے فوجی جارحیت کا شکار رہے اور تا دم تحریر اس وقت بھی مذکورہ علاقوں میں فوجی ناکہ بندیاں جاری ہے۔
ماہ نومبر میں پاکستانی فوج نے مقبوضہ بلوچستان میں 50 سے زائد فوجی آپریشنز کیے،دستیاب اعداد و شمار کے مطابق24 افراد کو فورسز نے دوران آپریشنز اغوا کیا۔اسی مہینے اوستہ محمد سے ایک لاش برآمد ہوئی جو مسخ ہونے کی وجہ سے شناخت نہ ہو سکی۔
دوران آپریشنز پاکستانی فوج نے سو سے زائد گھروں میں لوٹ مار کی،جبکہ پچاس گھروں کو بھی نذر آتش کیا۔
پاکستانی فوج کی زمینی و فضائی آپریشنز سے دو سو سے زائد مویشی بھی مارے گئے جبکہ دو ذکر خانوں کو بھی نذر آتش کیا گیا،دوران آپریشن پاکستانی فوج نے گورکوپ میں جنگلات کو بھی جلا ڈالا۔
اسی مہینے ایک نوجوان ریاستی تشدد خانوں سے بازیاب ہوا جن کو اسی سال مئی کے مہینے میں فورسز نے اغوا کیا تھا۔
دشت کے پہاڑی علاقوں،دڈامب،سائیجی،مزن بند جو ایک طرف ضلع کیچ اور ایک طرف ضلع گوادر دے ملتے ہیں کو پاکستانی زمینی فوج نے نومبر کے شروع سے ہی دونوں اطراف سے گھیرنے کے ساتھ تمام داخلی و خارجی راستے مکمل سیل کر دئیے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے پہاڑی علاقوں میں داخل ہونے کے ساتھ شیلنگ کرتے ہوئے سینکڑوں مال مویشیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔اسی طرح ضلع کیچ کے علاقے گورکوپ،مند،بلید اور ضلع پنجگور کے مختلف علاقوں میں بھی آپریشنز کا سلسلہ جاری رہا۔
ضلع آواران کے کئی علاقوں سمیت جھاؤ اور وادی مشکے بھی پاکستانی فوج کی سنگینوں سے نہ بچ سکے اور فوجی آپریشنز کی زد میں رہے اور تادم تحریر جھاؤ کے مختلف علاقوں میں آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔ دوران آپریشنز پاکستانی فوج نے تمام علاقوں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو جبر کا نشانہ بنایا اور درجنوں گھروں کو نذر آتش کیا جبکہ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے سینکڑوں مال مویشی بھی مارے گئے۔
قلات کے کئی علاقوں میں بھی آپریشنز کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔بہ آسان الفاظ کہا جائے تو نومبر کے مہینے میں بھی پاکستانی فوج کی ننگی جارحیت مقبوضہ بلوچستان میں جاری رہی ہے۔بلوچ قوم کا سامنا ایک ایسے دشمن سے ہے جو عالمی جنگی قوانین کے علاوہ انسانی حقدار سے عاری ایک بد معاش فوج ہے۔
بلوچ شہداء کی لاشوں کو ورثہ کو نہ دینا،انھیں اسلامی و بلوچ روایات کے تحت آخری رسومات ادا نہ کرنے دینے غیر انسانی و غیر مذہبی ہتھکنڈوں نے قابض پاکستانی فوج کی بھوکھلاہٹ کو واضح کر دیا ہے،مگر آزادی کے جذبہ سے سرشار شہداء کے لواحقین کی ہمت اور حوصلوں نے نہ صرف آزادی کی کو جہد کو نئی دشا دی ہے بلکہ دشمن فوج کو اخلاقی طور پر شکست سے دوچار کردیا ہے۔
آج بلوچ جہد آزادی اپنی منزل کی جانب رواں ہے تمام تر ریاستی و مقامی ایجنٹوں کے مظالم کے باوجود بلوچ قوم نے اقوام عالم کو کسی حد تک باور کرایا ہے کہ یہ قومی شناخت کی جہد ہے اور فرزندان وطن کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز نہیں کرینگے۔
نومبر کی تیرہ تاریخ کو شہدائے بلوچستان منایا جاتا ہے،قومی آزادی کی جہد میں روزانہ بلوچ فرزند شہید ہو رہے ہیں اور یقینا اگر ہر شہید کا دن منایا جائے تو سال کے تمام دن کم پڑ جائیں گے،اسی لیے زندہ قومیں تاریخی اعتبار سے شہداء کیلئے ایک دن متعین کرتے ہیں اسی طرح بلوچ بھی13 نومبر کو شہدائے بلوچستان مناتے ہیں، اور اگر تاریخی پس منظر میں دیکھائے جائے تو 1839 کو میر محراب خان نے برٹش انڈین آرمی کے خلاف اسی روز مزاحمت کرتے ہوئے ساتھیوں سمیت مادریں وطن کی دفاع میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا،اور بلوچ قوم نے بھی اسی روز کو شہدائے بلوچستان منانے کا فیصلہ کیا۔
اس سال 13 نومبر کو کو بھی شہدائے بلوچستان حوالے مختلف پروگرام منائے گئے۔بی این ایم کی جانب سے آن لائن پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں اس دن پر روشنی ڈالی گئی۔
آن لائن پروگرام سے پارٹی چیئرمین خلیل بلوچ، ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ممتاز انسانی حقوق کے کارکن پیٹر ٹیچل، نیشنز ودآؤٹ اسٹیٹ کے رہنماء گراہم ولیمسن، ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر نصیر دشتی، بانک کریمہ بلوچ اور ورلڈسندھی کانگریس کے رہنماء ہدایت بھٹونے خطاب کیا۔ مرکزی سطح کے ایک اور پروگرام میں پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل استاد بابل لطیف بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ماہ گنج بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبرظفربلوچ سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ بلوچستان میں مختلف علاقوں میں پروگرام کے علاوہ جرمنی کے شہر ہنوفر میں شہداء کی یاد میں چراگاں کیا گیا۔ اس دوران شہداء کی تصاویر، موم بتیاں اور پھول سجائے گئے۔ اس میں بی این ایم کارکنان اور مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایک میوزیکل پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف انقلابی گلوکار میراحمد بلوچ اور ساتھی فنکاروں نے بلوچ شہداء کی یاد میں گیت پیش کیئے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا شہداء نے اپنی ذاتی، خاندانی یا گروہی ضروریات و تقاضوں سے بالاتر ہوکر قومی مقصد اور قومی وجود کو نہ صرف ترجیح دی ہے بلکہ اپنی زندگیاں قربان کی ہیں۔ اپنی قومی بقا و قومی وجود کے لئے اپنی زندگی قربان کرنا بذات خود ایک انقلابی فلسفہ ہے۔ ایک عالم انسان میں یہ فکر نشو و نما پاتا ہے، وہ اس نہج پرپہنچ جاتا ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا 1839 کو انگریز کے خلاف مزاحمت بلوچ قومی مزاحمتی مزاج اور اپنی سرزمین سے محبت کا اظہار ہے کہ بلوچ نہ صرف اپنی سرزمین پر قبضہ کے خلاف ہے بلکہ بلوچ اس بات کے بھی حق میں نہیں ہے کہ اس کا سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال ہو۔ بلوچ ہمیشہ سے ایسی سوچ (توسیع پسندانہ) کو مسترد کرتا آیا ہے۔ قومی غلامی اور توسیع پسندانہ رویوں کے خلاف بلوچ قوم نے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ یہ قربانیاں اس بات کا اظہار ہیں کہ بلوچ اپنی موت میں قومی و راجی زندگی کا سراغ پاتا ہے۔ جب تک بلوچ پیر و ورنا میں یہ قربانی کا سوچ و فکر برقرار ہے تو یہ سوچ اپنی قوم کو ایک سمت کی جانب لے جاسکتا ہے، اپنی قومی منزل سے قریب ترکردیتا ہے۔ آج ہم اپنی قوم کے ہر طبقے میں اور ہر عمر میں اس سوچ کو وسیع پیمانے پرپاتے ہیں۔
ویبنار پروگرام میں ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ موت ایک سچائی ہے، جو کوئی پیدا ہوتا ہے اس کے لئے موت لازمی ہے۔ لیکن کون سی موت؟ آج ہم ان لوگوں کو یاد کررہے ہیں جو قومی موت مرے ہیں، شہید ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں سالوں کا مشاہدہ ہے کہ بلوچ بے خوف وخطر اپنی جان و مال قربان کرتے آ رہے ہیں۔ میرمہراب خان کے قربانی کی بات کی جائے تومیر مہراب خان کہتاہے ”ممکن ہے کہ دشمن مجھے شکست دے لیکن میں اپنی سرزمین کے لئے اپنی موت کوگلے لگا سکتا ہوں“۔۔ مہراب خان نے تقریباََ ایک سو اسی سال قبل یہ مثال قائم کی۔ بلوچ اپنی زندگیوں کا نذرانہ آج بھی پیش کر رہا ہے۔ بلوچ قوم محراب خان کے فلسفے پر قائم ہے، دوسرے شہداء کے راستے پر گامزن ہے۔ انہی قربانیوں نے نہ صرف ہماری قومی وجود برقرار رکھا ہے بلکہ ہمیں آزادی کی جدوجہدکے لئے توانائی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ 1948 کو خان محراب خان نہ تھا اگروہ (احمدیارخان) محراب خان کی طرح مزاحمت کرتا تو شاید ہماری زندگی اور جدوجہد کی یہ صورت نہ ہوتی۔ اگرخان مزاحمت کرتا تو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے شاید بین الاقوامی برادری مداخلت کرتا یا اقوام متحدہ چونکہ نوتشکیل شدہ تھے کوئی کردار پیش کرتا۔
ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا کہ جدوجہد جاری ہے۔ خان محراب خان کے بعدشہدا کی ایک لمبی فہرست ہے۔ نورا مینگل سے لے کر نواب نوروز خان اور آج کے میجر نوراتک، ہزارہا بلوچوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ یہاں اکبر خان پاکستانی نظام میں اپنی تجربے سے مایوس ہو کر مزاحمت کی راہ اپناتا ہے اور شہید ہوتا ہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہ واجہ غلام محمد، ڈاکٹر منان شہید کیے جاتے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر خالد محاذ پر شہید ہوتا ہے۔ یہاں شیہک جان تیروں کی بوچھاڑ میں، بمبارطیاروں کی گھن گرج میں مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں جدوجہد کا سبق دے کر شہادت کو گلے لگاتا ہے۔ یہاں باسط جان، اعجاز جان اور میراث جان اپنی شب عروس میں شہید ہوتے ہیں۔ یہاں ملک ناز، کلثوم شہیدکیے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو حیات بلوچ کی طرح شہید کیا جاتا ہے۔ یہاں چھوٹی سی یاسمین شہید ہوتاہے، یہاں برمش کو گولیوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جدوجہدمیں موت اور شہادت ہمیں بحیثیت قوم زندہ رکھتا ہے۔اس مرحلے پر ان حالات میں اگر ہم نے جدوجہد میں کمزوری دکھائی، ہم تاریخ میں صفحات میں کھوجائیں گے۔اگر ہم نے کمزوری دکھائی توپاکستان کے ہاتھوں ہماری نسل کشی خاموش نسل کشی میں بدل جائے گی اور دنیا بے خبر رہے گی۔
بی این ایم کے رکن اور بی ایس او کے سابقہ چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے کہااگر بلوچ کی قدیم اورجدید تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری سرحدیں محفوظ نہیں رہی ہیں۔اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ بلوچستان ہمیشہ قابضین کی مزموم خواہشات کی بھینٹ چڑھتاآیاہے لیکن بلوچ قوم نے اپنی بساط کے مطابق ان کا مقابلہ کیاہے اور کوشش کی ہے کہ اپنی سرزمین کو غیروں سے محفوظ رکھیں۔آج پاکستان کے قبضے کو ستر سے زائد گزر چکے ہیں۔ان ستر سالوں کی غلامی میں بلوچ اپنی سرزمین پرآرام وسکون کی زندگی نہیں گزاری ہے اورہمیشہ کوشش کی ہے کہ پاکستانی غلامی کے خلاف جدوجہد کریں،اس جدوجہدمیں خواتین وحضرات،بچوں،جوانوں اوربزرگوں کی طویل فہرست ہے جو قتل کئے گئے ہیں،اس حقیقت سے آشناہونے کے باوجود کہ زندگی ایک بارہی ملتی ہے انہوں نے سروں کی قربانی دی ہے۔
یقینا بی این ایم کی جانب سے شہدائے بلوچستان کے حوالے تقریبات اہمیت کا حامل اس لیے ہیں کہ ہمیں ان قربانیوں کو مشعل راہ بنانا چائیے جو آنے والی نسلوں کے لیے اپنا آج قربان کر چکے ہیں،شہداء کو انکی تعلیمات کو یاد کرنا اور ان پر عمل کرنا زندہ قوموں کی نشانی ہیں۔
بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین کی جانب سے سوشل میڈیا کا بھی بھر پور استعمال کیا جا رہا ہے جو یقینا نیک شکون ہے اس سے قابض پاکستان کو شایدکوئی فرق نہیں پڑتا مگر مظلوم افراد کی آواز ضرور گھونجے گی جو خود انقلاب سے کم نہیں ہے۔
نومبر کی آخری سورج غروب ہونے تک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری ہے، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو 4146 دن نومبر کے اختتام تک مکمل ہوگئے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کر رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ کا کہناہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت میں بیٹھے سارے مردہ ضمیروں نے فوجی آپریشن کی اجازت دے دی ہے۔انکا کہنا ہے کہ ان حالات میں بلوچوں کو چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر بلوچستان میں فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کے پامالیوں کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لائیں۔ آپریشن میں متاثرہ افراد، جلائے گئے گھروں اور لاشوں کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر شائع کرنے سمیت عالمی میڈیا پر چلایا جائے۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان بھر میں جاری جارحیت، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیئے گئے، بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں نے ان میں شرکت کی لیکن ارباب اختیار میڈیا اور مقامی انسانی حقوق کے اداروں کی کانوں میں ہلکی سی جنبش بھی نہ ہوئی۔ ایجنسیوں کی کوشش ہے کہ قتل و غارت گری کے بازار میں بلوچ فرزندوں کے لہو کو بے ثمر کھاتے میں ڈالا جاسکے مگر یہ کسی صورت بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا چونکہ جدوجہد کی خاطر جانیں قربان کرنے والے فرزندوں کے لواحقین اور قوم اپنی شہیدوں کی راہ اور لہو کا ادراک رکھتی ہے۔ بلوچستان کے وارث ضرور ان دوغلی پالیسی والے پارلیمانی افراد کو بے نقاب کرینگے۔ بلوچ بے شک مظلوم و محکوم سہی، غلام سہی مگر وہ اتنی ہمت رکھتی ہے کہ غلامی کیخلاف آواز بلند کرے۔
اسی طرح سندھ میں پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد کی لواحقین کا احتجاج اب آزادی مارچ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سند ھ سباھ کی جانب سے آزادی مارچ کا اعلان کیا گیا جودس نومبر کو کراچی پریس کلب سے شروع ہوئی اور مارچ کی منزل راولپنڈی پاکستانی آرمی کی جی ایچ کیو ہے۔ مارچ کی قیادت انعام عباسی،معروف سماجی کارکن حانی گل سمیت شازیہ چانڈیو کر رہے ہیں جبکہ آزادی مارچ میں سندھ سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی بڑی تعداد شامل ہے۔
مارچ کے شرکاء کے مطابق اس مارچ کا مقصد پاکستانی آرمی کے ہیڈ کوٹر پر اس وقت تک دھرنا دینا ہے جب تک انکے پیارے بازیاب نہیں ہوتے،طول سفر جو چودہ سو کلومیٹر سے زیادہ ہے یقینا لواحقین کے لیے کٹھن ہے مگر اس ظلمستان میں معصوم لوگوں کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔نومبر کے اختتام پر آزادی مارچ کو اکیس دن ہو چکے ہیں اور مارچ شاہ بھٹائی پہنچ چکی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سندھ بھر سے پہلے ہی 60 سے زائد سندھی قوم پرست کارکنان اور 500 کے قریب شیعہ اور اردو اسپیکنگ کارکنان لاپتہ ہیں۔
پاکستان اندرون خانہ جہاں بدترین معاشی تباہی کا شکار ہے وہیں پر اسکی فوج کے خلاف پہلی بار کھل کر لب کشائی بھی کی جا رہی ہے،نیازی حکومت جو برائے راست فوج کی مرہون منت ہے یا یوں کہیں غیر اعلانیہ مارشل لاء کو سخت اندورنی سیاسی دباؤ کا سامنا بھی ہے۔
اسی طرح گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے خلاف بھی مقامی سطح پر عوام میں سخت غم و غصہ پایا جا تا ہے،کہا جاتا ہے کہ شدید عوامی دباؤ کے بعد مشہور انقلابی بابا جان وافتخار کربلائی کو ساتھیوں سمیت رہا کر دیا گیا ہے،جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی خاص ڈیل کا نتیجہ ہے بہرحال وقت اور حالت خود اس بات کو واضح کر دینگے۔
دوسری جانب گلگت بلتستان کے الیکشن کو لے کر سوالات اُٹھنے شروع ہو چکے ہیں کہ وہاں صرف پاکستانی نواز پارٹیوں کا الیکشن تھا،عوامی سطح پر کوئی ایسا چہرہ یا پارٹی نہ تھا جس کی آواز عوام میں معروف یا قابل قبول ہو۔
پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں بھی حالات دن بدن انقلاب کی جانب رواں ہیں جہاں پاکستانی جھنڈا اُتارنے کے کیس میں سپریم کورٹ نے تنویر احمد کی ضمانت مسترد کر دی ہے اور آزادی پسند کشمیریوں میں سخت غصہ ہے،پاکستانی زیر قبضہ آزاد کشمیر کی آزادی پر اب وہاں کے لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ یہ کونسی آزادی ہے جہاں پورا سسٹم پاکستانی فوج اسکی خفیہ اداروں کے مرضی پہ چلتا ہو۔
ایک اور نوجوان نوید احمد کو پاکستانی خفیہ اداروں کے کارندوں نے دوران ڈیوٹی کشمیر میں شہید کر دیا۔دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اب پاکستانی زیر قبضہ آزاد کشمیر میں احتجاجوں میں اضافہ ہوا ہے جو عوام اور آزادی پسندوں کے لیے نئی مستقبل کی نوید ہے،اس صورت میں آزادی پسندوں کو عوام تک رسائی کے ساتھ انکو مذہبی شدت پسندی اور پاکستانی اسلامی کارڈ سے بچھانے کے لیے شعوری بنیادوں پر آگاہی دیتے ہوئے قومی شناخت کا درس دینے کی ضرورت ہے،پھر وہ وقت دور نہیں جب زیر قبضہ نام نہاد آزاد کشمیر میں نوجوان انقلابی بندوق اُٹھائیں گے جو حاکم وقت کی دھجیاں اُڑا دے گا۔وہ بندوق جس کی بھاگ دوڑ اسلامی کارڈ نہیں بلکہ شعور،کتاب،انصاف کی بنیاد پر ہو تو وہ بندوق ہی انقلاب کی بنیاد بنتی ہے۔
عالمی معاشی و عسکری تبدیلیوں کی تمام امیدیں اب نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں پر ہیں،اور یقینا ٹرمپ کی شکست سے ایک بڑی تبدیلی متوقعہ ہے خاص کر امریکہ کی خارجہ پالیسی،اب وقت ہی بہتر انصاف کر سکے گا کہ حالات کس کروٹ بدلتے ہیں۔
بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے نئے امریکی صدر کو مبارک باد دیتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹر پر اپنے ایک ٹیوٹ میں کہا ہے کہ
میں جو بائیڈن کو امریکہ کا 46 واں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ عالمی رہنماؤں کے ساتھ مل کر، بلوچستان میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر پاکستان کو جوابدہ ٹھہرائیگا، اور بلوچ قوم کو انکی قومی آزادی کے لئے جدوجہد میں مدد کرے گا۔
بلوچ آزادی پسندرہنما،دانشور،بی ایس او کے سابق چئیرمین،بی این ایم کے سابق مرکزی سیکریٹری جنرل رحیم بلوچ نے کہا ہے کہ امید ہے کے نئے امریکی صدر بلوچستان پر پاکستان کی جبری قبضہ کے خلاف بلوچ تحریک آزادی کی مدد کریں گے۔
بلوچ رہنما نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹر پر اپنے ٹیوٹس میں کہا کہ پریذیڈنٹ الیکٹ جو بائیڈن اور وائس پریذیڈنٹ الیکٹ کملا ہیریس کو ان کی تاریخی جیت پر مبارکباد۔ امید ہے جنوبی ایشیا کیلئے امریکی پالیسی تشکیل دیتے وقت وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے دوہرے اور تباہ کْن کردار کو مدنظر رکھیں گے۔
مجھے یہ بھی امید ہے کہ وہ پائیدار امن، ترقی، اور جمہوریت اور مذہبی ہم آہنگی کی فروغ جیسے ہمارے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ایک آزاد بلوچستان کی اہمیت کا ادراک و اقرار کرکے بلوچستان پر پاکستان کی جبری قبضہ کے خلاف بلوچ تحریک آزادی کی مدد کریں گے۔
یقینا مظلوم بلوچ قوم جو اپنی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہے اور ایک ایسے دشمن سے اس کا سامنا ہے جو امریکہ کا اتحادی رہ چکا ہے اور دنیا اسے اسلامی شدت پسند ملک یا ایک پروکسی کے طور پر جانتا ہے،اب نئے امریکی صدر کی پالیسی پاکستان،چین،افغانستان کو لے کر کیا ہو گی یقینا اس کے اثرات بلوچ پر بھی پڑیں گے،تجزیہ نگار یہ امید کر رہے ہیں کہ جو بائیڈن پاکستان کی ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی خاص جھکاؤ یا لچک کا مظاہرہ نہیں کرئے گا۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سب مظلوم عوام بشمول بلوچ کے لیے ایک اچھی اور موثر بات ہو گی اگرامریکی صدر نے پھر غلطی سے پاکستان پر اعتبار کر کے اسکی فوجی امداد کے ساتھ اسے معاشی ریلیف دیا تو یہ دنیا کی امن کے لیے خطرئے کا باعث بن سکتی ہے۔
ماہ نومبر کی تفصیلی رپورٹ
یکم نومبر
۔۔۔ضلع پنجگورمیں پاکستانی فوجی آپریشن جاری بزرگ بلوچ سمیت کئی افراد لاپتہ
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے گوارگو میں پاکستانی فوج نے دوران آپریشن گوارگو سے عمر رسیدہ بزرگ صالح محمد نامی شخص کو تشدد کے بعد جبری لاپتہ کر دیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی کئی لوگوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں کئی گھر بھی نذر آتش کر دیئے گئے ہیں۔
۔۔۔ سائیجی،دڑامب اور دشت کے پہاڑی سلسلوں میں آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔ضلع گوادر سے ان پہاڑی علاقوں میں داخلی و خارجی راستوں کو مکمل سیل کر دیا گیا ہے۔
۔۔۔پاکستانی آرمی کاشہید اسحاق کے والداورفاتحہ خوانی پھر موجود لوگوں پر تشدد
۔۔۔ضلع کیچ آسکانی بازار میں آج ایک بار پھر پاکستانی فوج نے شہید اسحاق کے گھر پر چھاپہ مارکر فاتحہ خوانی کے لئے بیٹھے لوگوں کو نہ صرف زدوکوب کیا گیا بلکہ شہید اسحاق کے والد واجہ لال بخش کو حراست میں لے کر فوجی کیمپ منتقل کردیا۔
۔۔۔ پاکستانی فوج نے لال بخش کو کیمپ منتقلی کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بناکر دھمکی دی ہے کہ اگر آپ لوگوں نے شہید اسحاق کے لئے فاتحہ خوانی کا سلسلہ ختم نہ کی تو آپ کو لوگوں عبرت کا نشانہ بنایا جائے گا تاہم بعد ازاں شہید اسحاق کے والد کو رہا کردیا گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں کیچ کے علاقے بلیدہ جاڑین کے مقام پاکستانی فوج کے ساتھ دو بدو لڑائی میں اسحاق بلوچ شہید ہوئے تھے۔
2 نومبر
۔۔دشت سائیجی کے علاقوں میں آپریشن شدت کے ساتھ جاری
3 نومبر
۔۔۔منگل کے روزپاکستانی فوج نے نوجوان طالب ثناء للہ ولد دوست محمد سکنہ بلیدہ کو پنجگور کے علاقے چتکان سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
۔۔۔جبکہ کیچ کے علاقے بلیدہ میں پاکستانی فوج کی پانچویں روز میں بھی آپریشن جاری ہے۔جاڑین اور گردونواح میں آپریشن کے دوران فورسز نے تین افراد کو حراست میں لیا جن میں فضل، رگام اور عبدالکریم شامل ہیں، مذکورہ افراد کو فوج نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
۔۔۔ضلع پنجگور کے مختلف علاقوں میں ریاستی فورسز کا آپریشن جاری ہے
آپریشن میں زمینی فوج کے ہمراہ گن شپ ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں جنہوں نے مختلف علاقوں میں شیلنگ کی ہے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں آج دوسر روز بھی فوجی آپریشن جاری ہے علاقہ مکمل فوجی محاصرے میں ہے بڑی تعداد فوجی اہلکار علاقے میں تعینات ہیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق اس وقت علاقہ مکمل فوجی محاصرے میں ہے بڑی تعداد میں فوجی اہلکار علاقے میں تعینات ہیں جبکہ آپریشن میں کی زد میں آنے والے علاقوں میں گورکوپ کے میدانی و پہاڑی علاقے شامل ہیں۔
5 نومبر
۔۔۔دشت و گرد نواع میں پاکستانی فوج کا آپریشن 5 ویں روز بھی جاری،گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ۔
دشت کے پہاڑی علاقوں میں پاکستانی فوج کا زمینی و فضائی آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق دشت کے پہاڑی علاقوں کو ضلع گوادر اور ضلع کیچ کی اطراف سے پاکستانی فوج نے گھیرے میں لے رکھا ہے،اور پہاڑی علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
سائیجی،کھڈان،سُنٹ سر،کھنڈے سل، و گرد نواع میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کے ساتھ زمینی فوج کا آپریشن بھی جاری ہے۔
مذکورہ آپریشن پانچ روز قبل شروع کیا گیا تھا،جو شدت کے ساتھ جاری ہے،۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے نوشکی بازار سے ایک نوجوانوں کو دوستوں کے سامنے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق دو روز قبل پاکستانی فوج نے نوشکی بازار سے ایک نواجون کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
بتایاجارہا ہے نوشکی سے پاکستانی فوج نے نواجوان کو اس وقت حراست میں لے نامعلوم مقام منتقل کردیا جب وہ دوستوں کے ہمراہ بازار میں بیٹھے تھے جبکہ حراست بعد لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت ریاض جمالدینی کے نام سے ہوئی ہے
واضح رہے اس سے قبل ریاض جمالدینی کے بھائی عامر کو پاکستانی فوج نے 2013 کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا بعد ازاں دوران حراست انکو شہید کر کے مسخ لاش پھینکی گئی
6 نومبر
۔۔۔ضلع کیچ کے کئی علاقوں میں پاکستانی فوجی آپریشن جاری ہے۔
واضح رہے کہ دشت کے پہاڑی علاقوں کو گوادر اور کیچ کی اطراف سے پاکستانی فوج نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور پہاڑی علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کا سلسلہ چھٹے روز بھی جاری ہے۔
سائیجی، کھڈان، سْنٹ سر،کنڈا سول سمیت مختلف علاقے شدید فوجی بربریت کی زدمیں ہیں، ان علاقوں میں گن شپ ہیلی کاپٹرمسلسل شیلنگ کررہے ہیں یاد رہے کہ سائیجی سمیت مختلف علاقوں میں چھ روز قبل آپریشن شروع کیا گیا تھاجس میں شدت لائی جارہی ہے۔
جبکہ چار زور قبل کیچ کے علاقے گورکوپ میں شروع ہونے والی فوجی آپریشن شدت کے ساتھ جاری ہے آپریشن میں ہزاروں فوجی حصہ لے رہے ہیں جنہیں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج نے گورکوپ میں ذکری فرقے کے ’بکسران‘ اور’کروچی‘ کی زیارتوں کو فوج نے نذر آتش کردیاہے۔
اس وقت گورکوپ کے زیادہ ترپہاڑی علاقوں میں شدید فوجی آپریشن جاری ہے،فوج کی جانب سے پہاڑی سلسلے میں زیارتوں کے علاوہ مالدارلوگوں کے گھر اور بیشتر ندیوں میں جنگلات کو جلانے کا عمل جاری ہے۔
۔۔ضلع پنجگور کے علاقے گچک کرک ڈھل سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے دوران آپریشن باپ بیٹے کو حراست میں لے کر اپنے ساتھ لے گئے۔
گرفتار کے بعد لاپتہ ہونے والوں میں ہارون ولد راحمین اور مدد ولد ہارون شامل ہیں۔
دونوں افراد باپ بیٹے ہیں،دوران آپریشن فورسز نے انکے گھروں میں لوٹ مار بھی کی، واضح رہے کہ اس وقت مقبوضہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے اور بلوچ فرزندوں کی فورسز ہاتھوں جبری گمشدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے تین روز قبل کیچ کے علاقے گورکوپ سے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے.
پاکستانی فوج نے تین روز کیچ کے علاقے گورکوپ سے رشید ولد سردو کو دوران آپریشن حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا جو تاحال لاپتہ ہیں.
بتایا جارہا رشید ایک چرواہا ہے جسے پاکستانی فوج نے اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جو پہاڑی سلسلے میں اپنے بیٹے کے ہمراہ بکریاں چرا رہا تھا تاہم پاکستانی فوج اس کے بیٹے چھوڑ دیا جبکہ رشید کو اپنے ساتھ لے گئے۔
8 نومبر
۔۔۔ضلع مستونگ سے پاکستانی فورسز نے ایک نوجوان کو گذشتہ روز حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت رازق بنگلزئی سے ہوئی،جنکومستونگ میں پرانا روڈ قلات سے فورسز نے حراست میں لیا۔
علاقائی ذرائع کے مطابق پاکستانی فورسز اہلکاروں اور سادہ کپڑوں میں اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے۔
9 نومبر
۔۔۔وادی مشکے پاکستانی فوج نے ایک نوجوان کو حراست بعد لاپتہ کر دیا
ضلع آواران کے تحصیل وادی مشکے میں ریاستی بربریت جاری ایک نوجوان فورسز ہاتھوں اغوا
وادی مشکے کے علاقے نوکجو،شہدینزی، سے ہفتہ 7 نومبر کو پاکستانی فوج نے آبادی پر دھاوا بول کر
طارق ولد بچو کو اپنے ساتھ لے گئے، اس دوران فورسز نے گھروں میں موجود تمام سامان کا صفایا کرنے کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
10 نومبر
۔۔۔اوستہ محمد سے مسخ لاش برآمد،شناخت کے لیے ہسپتال منتقل
اوستہ محمد کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے جس کو اوستہ محمد ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
لاش مسخ ہونے کے باعث ناقابل شناخت بتائی جارہی ہے۔
11 نومبر
۔۔۔دشت کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج کا زمینی و فضائی آپریشن گزشتہ دس دنوں سے جاری ہے۔
ضلع کیچ اور ضلع گوادر کی جانب سے دشت کے علاقوں میں آپریشن جاری ہے اور 10 گن شپ ہیلی کاپٹر روزانہ کی بنیادوں پر گوادر آرمی کیمپ سے دشت کے علاقوں سائیجی،دڑامب کے پہاڑی سلسلوں میں شیلنگ کے ساتھ دن بھر فضائی آپریشن کے بعد شام کے وقت واپس ضلع گوادر کے آرمی کیمپ میں لینڈ کر جاتے ہیں۔
ضلع گوادر کی جانب سے منسلک تمام راستے جو ضلع کیچ اور دشت کے پہاڑی سلسلوں میں جاتے ہیں پاکستانی زمینی فوج کی بھاری تعداد تعینات ہے۔
مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ ان پہاڑی سلسلوں میں تمام پانی کے چشموں میں پاکستانی فوج نے زہر ملادیا ہے جس سے اب تک سینکٹروں جانور مر چکے ہیں۔
14 نومبر
۔۔۔پاکستانی فوج نے کیچ کے مرکزی شہر تربت سے دو افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا۔
کیچ کے مرکزی شہر تربت آسکانی بازار میں شہید اسحاق بلوچ کے دوقریبی رشتہ دار کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔گزشتہ دنوں بلیدہ میں شہیدہونے والے شہید اسحاق بلوچ کے لاش کو نہ صرف ورثاکے حوالے کرنے کے بجائے گمنام دفن کردیا گیاتھا بلکہ ان کے والدین اوردوسرے قریبی عزیزوں پر فوجی بربریت جاری ہے،اسحاق بلوچ کے شہادت کے بعد فاتحہ خوانی کے لئے آئے لوگوں پر فوج نے بے پناہ تشدد کی تھی اور لوگوں کو دھمکی دی تھی کہ فاتحہ خوانی جاری رکھا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
گزشتہ روز فوج نے فوج نے ایک بار پھر شہید اسحاق کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا اور ایک چھاپے کے دوران لیاقت ولد نور محمد اور عارف ولد سفر کوحراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
واضح رہے کہ لیاقت کو 2019 کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیااورکئی دنوں تک تشددکے بعد رہاکردیاگیاتھا۔
۔۔۔ جھاؤ پاکستانی فوج نے سورگر کے پہاڑی سلسلے میں ایک باروسیع آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔
جھاؤکے علاقوں گروک اوراورناچ کی جانب سے فوج دستے بڑی تعداد میں سورگر میں داخل ہورہے ہیں،یہ فوجی دستے پیادہ،ٹرکوں،موٹرسائیکل اوراونٹ و گدھوں پر مشتمل ہیں اورمقامی ڈیتھ سکواڈ بھی بڑی تعدادمیں ہمراہ ہیں۔
کیچ اور جھاؤ میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن جاری ہے جھاؤ میں بیلہ سے مزید فوجی دستوں کی آمد بھی جاری ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق ارہ سے پاکستانی فوج اونٹوں کے ذریعے سے علاقے میں داخل ہوچکی ہے اور بیلہ سے بڑی تعداد میں فوجی دستوں کا علاقے میں آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
یاد رہے اس قبل پاکستانی فوج بڑی تعداد میں گروک اور اورناچ کی طرف سے سورگر میں داخل ہوچکی ہے اور یہ فوجی دستے پیادہ، ٹرکوں، موٹر سائیکل اور اونٹ و گدھوں پر مشتمل ہیں اورمقامی ڈیتھ سکواڈ بھی بڑی تعدادمیں ہمراہ ہیں۔
دوسری جانب سے کیچ اطلاعات ہیں کہ گزشتہ دنوں گورکوپ میں شروع ہونے والا آپریشن تاحال جاری ہے جبکہ آج پاکستانی فوج نے واحد اور نیاز سکنہ کورِ بازار کو حراست مین لینے کی کوشش کی تو خواتین نے مزاحمت کی، مزاحمت کرنے والی خواتین پر فوج نے بہیمانہ تشدد کی جس سے کئی خواتین زخمی ہوئے۔
15 نومبر
تیرہ نومبر یوم شہداء کی مناسبت سے بی این ایم کاآن لائن ویبنار
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ 13 نومبر یوم شہدا کی مناسبت سے مرکزی سطح پر آن لائن ویبنار اور بلوچستان کے علاوہ کئی ممالک میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن پروگرام سے پارٹی چیئرمین خلیل بلوچ، ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ممتاز انسانی حقوق کے کارکن پیٹر ٹیچل، نیشنز ودآؤٹ اسٹیٹ کے رہنماء گراہم ولیمسن، ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر نصیر دشتی، بانک کریمہ بلوچ اور ورلڈسندھی کانگریس کے رہنماء ہدایت بھٹونے خطاب کیا۔ مرکزی سطح کے ایک اور پروگرام میں پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل استاد بابل لطیف بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبر ماہ گنج بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبرظفربلوچ سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ بلوچستان میں مختلف علاقوں میں پروگرام کے علاوہ جرمنی کے شہر ہنوفر میں شہداء کی یاد میں چراگان کیا گیا۔ اس دوران شہداء کی تصاویر، موم بتیاں اور پھول سجائے گئے۔ اس میں بی این ایم کارکنان اور مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایک میوزیکل پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف انقلابی گلوکار میراحمد بلوچ اور ساتھی فنکاروں نے بلوچ شہداء کے یاد میں گیت پیش کیئے۔
17نومبر
۔۔بلوچستان میں انسانی حقوق پامالیوں کیخلاف جرمنی میں احتجاجی مظاہرہ
بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے کہا بلوچستان میں ریاست کی طرف سے تعلیم دشمن پالیسیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بی آر پی کی جانب سے ہفتے کے روز جرمنی کے شہر کولن میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اورایک آگاہی کیمپ منعقد کی گئی۔
۔۔وادی مشکے پاکستانی فوج نے دو بھائیوں کو حراست بعد لاپتہ کردیا
وادی مشکے میں پاکستانی فوج نے دو بھائیوں کوحراست بعد لاپتہ کردیا ہے،15 نومبر کو پاکستانی فوج وادی مشکے کے علاقے جیبری میں اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے دو افراد کو جیبری آرمی کیمپ میں بلایا اسکے بعد تاحال دونوں نوجوان لاپتہ ہیں۔
دونوں نوجوان بھائی ہیں جنکی شناخت یعقوب ولد مرید، اور غلام جان ولد مرید کے ناموں سے ہوئے ہیں۔
تاحال دونوں بھائیوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے،لواحقین نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ انکے پیاروں کوبغیر کسی گناہ کے فوج نے لاپتہ کیا ہے اور انکے بازیاب کرایا جائے۔
۔۔۔جھاؤ میں فوجی آپریشن میں وسعت، علاقے میں گن شپ ہیلی کاپٹروں مسلسل شیلنگ کررہے ہیں۔
جھاؤ میں کئی دنوں سے جاری فوجی آپریشن میں مزید وسعت لائی گئی ہے اور پاکستانی فوج بڑی تعداد میں سورگر کے وسیع پہاڑی سلسلیمیں کئی اطراف سے داخل ہوچکا ہے۔
مختلف علاقوں سے فوجی آپریشن تواتر کے ساتھ جاری ہے، سورگر میں کئی مقامات پر ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کمانڈو اتارنے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا شیلنگ جاری ہے۔
سورگر جھاؤ، اورماڑہ، لسبیلہ،اروناچ کے درمیانی ایک وسیع پہاڑی سلسلہ ہے جہاں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل فوجی آپریشن جاری ہے۔
سورگر کے بیشتر آبادیوں کو فوج نے اپنے آبائی علاقوں سے بیدخل کرکے نشیبی علاقوں میں فوجی کیمپوں اور چوکیوں کے قرب و جوار میں بسنے پر مجبور کردیا ہے۔
۔۔۔ضلع کیچ:ریاستی کارندہ ملا عمر بیٹوں سمیت ہلاک
ملا عمر ایرانی کو منگل کی شام گئے، ضلع کیچ میں پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔اس واقعہ میں ملا عمر کے دو بیٹے جن کے نام حسن اور حسین تھے بھی پولیس کی گولیاں لگنے سے بھی ہلاک ہوئے۔
ملا عمر کی ہلاکت کا واقعہ ضلع کیچ کی مرکزی شہر تربت کے پوش علاقہ سیٹلائیٹ ٹاؤن میں تربت انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے بالکل قریب ہی ایف سی کی چیک پوسٹ سے چند قدم کے فاصلے پر پیش آیا۔اس کے فورا بعد ایف سی نے بھی وہیں آکر ملا عمر کی گاڈی کو گولیوں کا نشانہ بنایا یوں پولیس اور ایف سی دونوں فورسز نے مشترکہ کاروائی میں ان کو ہلاک کردیا۔
علاقائی شاھدین کے مطابق شام سے پولیس نے سیٹلائیٹ ٹاؤن کے مختلف ایریاز میں گشت بڑھائی تھی اور کچھ اہم مقامات پر پوزیشن لے کر پولیس اور ایف سی کے اہلکار کھڑے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت باقاعدہ منصوبہ بندی کے نتیجے میں عمل پزیر ہوئی۔
ذرائع کے مطابق منگل کے روز ایک خفیہ ادارے نے ملا عمر کو دو مرتبہ طلب کیا تھا لیکن وہ پیشی دینے نہیں گئے۔شام کو ایف سی نے بھی اس کو ہیڈکوارٹر تربت میں بلایا مگر ملا نے جانے سے انکار کردیا تھا گویا قتل سے قبل ملا عمر سے کوئی گہری بات کی جانے والی تھی اور ملا عمر کو اس کی شاید احساس تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے، تب ہی وہ ریاست پاکستان اسکی فوج کے مہمان ہونے کے باوجود ان کا حکم ٹالتا رہا۔
ایک خیال یہ ہے کہ شام گئے جب انہوں نے کچھ غلط محسوس کیا تو ایک گاڈی میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر فرار کی کوشش کی چونکہ پولیس اور ایف سی ہر جگہ ان کے تعاقب کے لیے پہلے سے مورچہ زن تھے تو اسے راستے میں رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن ملا عمر نے گاڈی نہیں روکی اور مذید اسپیڈ سے بھاگنے کی ناکام کوشش کی جس کے بعد ان کا قصہ ختم کردہا گیا۔
ان کے ہلاکت کی جو بظاہر کہانی سامنے آرہی ہے فی الحال یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیاں کچھ روز قبل اعلی سطحی ملاقات میں ایک دوسرے کو مطلوب ایسے ملزمان جو ایک دوسرے کے ہاں رہائش پذیر ہیں حوالگی یا مارنے کا معاہدہ ہو تھا اور ملا عمر کو پہلی فرصت میں ہلاک کر کے گویا پاکستان نے ایران کو اعتماد بحال کرانے کا سگنل دیا۔
20 نومبر
۔۔۔مند میں فوجی آپریشن جاری، پہاڑی علاقوں میں پیش قدمی
بلوچستان کے علاقے مند میں پاکستانی فورسز کی آپریشن جاری ہے، فورسز پہاڑی علاقے میں پیش قدمی کررہے ہیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق مند کے علاقے سہرین کوہ، انجیری کوہ اور گردونواح میں پاکستانی فورسز نے آج بروز ہفتہ کوآپریشن کا آغاز کیا۔
۔۔۔ پاکستانی فورسز نے کیچ کے مرکزی شہر تربت میں ایک بار پھر جانبحق ہونے والے اسحاق کے رشتہ داروں کے گھروں پر چھاپہ مارا ہے۔
تربت آسکانی بازار میں اسحاق بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں پر پاکستانی فورسز نے چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور لوگوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے موبائل کا استعمال ترک نہیں کیا تو خواتین کو بھی اٹھایا جائے گا۔
۔۔۔آواران پاکستانی فوج کا آبادی پر حملہ،ایک شخص کی حالت تشویشناک
پاکستانی فوج کا ضلع آواران کے مختلف علاقوں میں آپریشن،گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ لوگوں پر تشدد
پاکستانی فوج نے جمعہ کی صبح پیراندر،زیلگ میں آبادی پر دھاوا بول کر مزدوروں،کسانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا،گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ ایک کسان راشد ولد ریسو کو انکے گھروالوں کے سامنے سخت تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنے ساتھ لے گئے،پانچ گھنٹے شدید تشدد کے بعد اسکو اسکے گھر کے باہر نیم مردہ حالت میں پھینک دیا گیا ہے۔
21 نومبر
۔۔۔بلوچستان کے علاقے خاران سے لاپتہ طالب علم ثنا بلوچ بازیاب ہوگئے۔
ثنا بلوچ کو اسی سال مئی کی گیارہ تاریخ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے چھاپہ مار کر گرفتار کرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کر دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق لاپتہ ہونے والا طالب علم ثناء بلوچ منظر عام پر آگیا ہے اور اس وقت اسے مختلف مقدمات پرپولیس کے انسداد دہشت گردی کے حوالے کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے طالب علم ثنا بلوچ کے لواحقین نے چار ستمبر کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کہا تھا کہ پاکستانی فوج کے کرنل عمر فاروق نے تصدیق کی کہ ثنا بلوچ ان کی تحویل میں ہے جن کو تفتیش کے بعد رہا کردیا جائے گا لیکن چار مہینے گزرنے کے باوجود ثنا بلوچ رہا نہیں ہوئے۔
۔۔۔ پاکستانی فورسز نے مشکے کے علاقے مہی کے رہائشی دلجان ولد مرید کو نوکجو آرمی کیمپ بلا کر بعد میں لاپتہ کردیا۔
واضح رہے کہ چار روز قبل دلجان کے دو بھائی یعقوب اور غلام جان کو بھی جیبری میں قائم آرمی کیمپ بلا کر بعد میں لاپتہ کردیا تھا۔
دلجان کے لواحقین نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی وہ ہمارے پیاروں کی پاکستانی فورسز کی قید بحفاظت بازیابی کیلئے کردار ادا کریں۔
25 نومبر
۔۔۔بلوچستان کے ضلع قلات میں پاکستانی فوج نے آج صبح فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق شور پارود سمیت خاران اور نوشکی کے پہاڑوں سلسلوں پر مشتمل علاقوں میں فورسز پیش قدمی کررہی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق بڑی تعداد میں پاکستانی فورسز کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں ملبوس مبینہ طور پر ڈیتھ اسکواڈز کے اہلکاروں کو گاڑیوں میں مذکورہ علاقوں کی جانب جاتے دیکھا گیا۔ بْنڈالو اور گرد نواح میں فورسز کے پڑاو ڈالنے کی بھی اطلاعات ہے۔
۔۔۔ بلوچستان کے ضلع سبی سے پاکستانی فورسز نے چلّا ولد جْھڑیا ڈومکی کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق چلّا سبی کے علاقے لہڑی کا رہائشی ہے جنہیں پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔
26 نومبر
۔۔۔شہید اسحاق کے گھر پر ایک بار پھر فورسز کا چھاپہ، شہید کی بیوہ کو لاپتہ کرنے کی دھمکی
پاکستانی فوج نے کیچ کے مرکزی شہر تربت میں ایک بار پھر شہید اسحاق کے گھر پر چھاپہ مارا ہے، اس سے قبل بھی پاکستانی فوج تین مرتبہ چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بناچکاہے۔
پاکستانی فوج نے ایک بار پھر چھاپہ مارکر شہید اسحاق کی بیوہ کو اغواء کرنے کی دھمکی کے ساتھ ساتھ قریبی دکانداروں کو سختی سے منع کی ہے کہ ان لوگوں کوکسی نے بھی اشیائے خردونوش کی سامان فروخت کی تووہ اپنے ذمہ دار خود ہونگے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی شہید اسحاق بلوچ کے قریبی رشتہ داروں کے گھروں پر پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور تمام لوگوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے موبائل کا استعمال ترک نہیں کی تو خواتین کو بھی اٹھایا جائے گا۔
اسحاق بلوچ کے شہادت کے بعد پاکستانی فوج کا اس کے قریبی رشتہ داروں پر بربریت بدستور جاری ہے آج فوج نے تشدد کے بعد دھمکی بھی دی ہے شہید کی بیوہ کو اٹھائی جائے گی۔
گزشتہ دنوں ایک چھاپے کے دوران اسحاق بلوچ کے قریبی رشتہ دار لیاقت ولد نور محمد اور عارف ولد سفر کو بھی فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا جن میں گزشتہ روز لیاقت بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے عارف تاحال لاپتہ ہیں۔
28 نومبر
۔۔۔مستونگ سے 3پروفیسر زفورسز کے ہاتھوں لاپتہ
بلوچستان یونیورسٹی کے 3پروفیسر زمستونگ سے لاپتہ ہوگئے۔پروفیسرز کی گاڑی مستونگ کے نواحی علاقہ غلام پڑینز سے برآمد ہوئی ہے۔
پولیس کے مطابق لاپتہ پروفیسرز میں سے دو کانک کے علاقے سے منظر عام پر آگئے۔ جبکہ ایک پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی تاحال لاپتہ ہے۔
لیاقت سنی بلوچستان یونیورسٹی میں براہوئی ڈیپارٹنمنٹ کے چیئرمین ہے جبکہ وہ براہوئی زبان پر تحقیق کے حوالے سے جانے جاتے ہیں علاوہ ازیں وہ راہشون ادبی دیوان کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ انہوں نے براہوئی میں براہوئی جدیدی شاعری پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔اور ان کی شاعری کا مجموعہ چکار بھی منظر عام پر آچکا ہے۔
براہوئی زبان و ادب کے حوالے سے بھی ان کی6 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے ڈھاڈر سے پاکستانی فورسز نے رہا ہونے والے ایک شخص کو دوبارہ لاپتہ کردیا۔
نادر خان ولد حاجی سید خان کو دو روز قبل پاکستانی فورسز نے ڈھاڈر سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔ نادر خان بنیادی طور پر سبی کے علاقے جالڑی کا رہائشی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ نادر خان کو اس سے قبل آٹھ مئی کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا تھا جنہیں آٹھ نومبر کو منظر عام پر لاکر جیل منتقل کیا گیا، انہیں تین روز قبل رہائی کے ایک دن بعد دوبارہ حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا۔
29 نومبر
۔۔۔ ڈھاڈر سے ایک اورنوجوان کوفورسز نے لاپتہ کردیا
بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے ڈھاڈر سے پاکستانی فورسز کے اہلکاروں نے نوجوان یوسف ولد بنگل خان مری کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
بق نوجوان کو پاکستانی فورسز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیا اور اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد ان کے حوالے سے معلومات نہیں مل سکی ہے۔
گذشتہ دنوں مذکورہ نوجوان کے قریبی رشتہ دار نادر خان ولد حاجی سید خان کو بھی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا، نادر خان چھ مہینے لاپتہ ہونے کے بعد رہا ہوئے تھے جنہیں پولیس کے حوالے کیا گیا جہاں انہیں جیل میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔
لواحقین کے مطابق نادر کو پولیس حراست سے رہائی کے ایک دن گزرنے کے بعد دوبارہ فورسز اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔
30 نومبر
۔۔۔۔فورسز ہاتھوں لاپتہ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی بازیاب ہوگئے
گذشتہ روز مستونگ سے لاپتہ ہونے والا جامعہ بلوچستان کا پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی بازیاب ہوگئے۔
بروزپیرجامعہ بلوچستان کا لاپتہ پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی دارالحکومت کوئٹہ سے بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
۔۔۔۔تربت میں بلوچ صحافی مقبول ناصر کے گھر پر فورسز کا چھاپہ و تشدد
کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستانی پولیس کے خصوصی دستے سی آئی اے نے معروف بلوچ صحافی و لکھاری اور تربت پریس کلب کے ممبر مقبول ناصر کے گھر پہ چھاپہ مارا ہے۔
بلوچستان میں پاکستانی فورسز اور بالخصوص خفیہ اداروں کی جانب سے آئے روز صحافی، اساتذہ اور معاشرے کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھر پہ چھاپہ مار کر انھیں گرفتار کرکے لاپتہ کردیتا ہے۔
مقبول ناصر نے اپنے گھر پر پولیس کے چھاپے کو غیر قانونی قرار دیدتے ہوئے کہا کہ کسی چور کی موجودگی کے شبہ کو جواز بناکر چھاپہ مارا گیا ہے۔اورمزاحمت پر مجھے اور میرے بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بناگیا۔
انہوں نے کہاکہ باہر سے آنے والے ایک چور کی موجودگی کے شبہ پرمیرے گھر پر غیر قانونی چھاپہ سی آئی اے کی غنڈہ گردی اور دہشت پھیلانا ہے۔
ادبی اور صحافتی حلقوں نے تربت میں سی آئی اے کی جانب سے بلوچستان اکیڈمی تربت کے سابق وائس چیئرمین،تربت پریس کلب کے ممبر اور افسانہ نگار مقبول ناصر کے گھر پر چھاپہ اور فیملی کو تشدد کا نشانہ بنایانے کے گھناؤنا عمل کی شدید مذمت کی اوراسے تشوشناک عمل قرارد یا جبکہذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔
٭٭٭