ایتھوپیا کی فوج نے سیاسی انتشار کے شکار علاقے تیگرائی کے دارالحکومت میکیلے پر قبضے کا آپریشن شروع کر دیا ہے۔ تیگرائی کے باغیوں نے ہرممکن مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
افریقی ملک ایتھوپیا کے انتہائی شمالی علاقے تیگرائی کے دارالحکومت میکیلے پر قبضے کے فوجی آپریشن شروع کیے جانے کی تصدیق اس علاقے کے باغیوں کی تنظیم کے سربراہ نے کر دی ہے۔
تیگرائی محاذِ آزادی کے سربراہ ڈیبرٹسین گیبریمشیل نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ایتھوپیا کے جنگی طیاروں نے ہفتہ اٹھائیس نومبر سے شہر پر زوردار بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ تیگرائی کے لوگ اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر ہر جارحیت کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔
تیگرائی دارالحکومت میکیلے پانچ لاکھ آبادی پر مشتمل ایک بڑا شہر ہے۔
تیگرائی کے دارالحکومت میکیلے کو ایتھوپیا کی فوج کے حوالے کرنے کا تین روزہ الٹی میٹم ختم ہونے کے بعد شہر پر بھاری ہتھیاروں (توپوں اور ٹینکوں) سے گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس گولہ باری سے میکیلے شہر کے مرکزی حصے کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس بمباری کی تصدیق بلدیاتی اہلکاروں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے سوال پر کی ہے۔ شہر پر کی جانے والی بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں اور زخمیوں کے بارے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ روئٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دھماکوں کی آوازیں میکیلے شہر کے شمالی حصے سے سنائی دے رہی ہیں۔
ایتھوپیا کے نوبل انعام برائے امن حاصل کرنے والے وزیر اعظم آبی احمد کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ میکیلے شہر پر حملے سے پہلے ہی خبردار کیا جا چکا تھا۔ اس بیان کے مطابق ملکی فوجیں تیگرائی کے بڑے شہر ادیگرات پر قبضے کے بعد میکیلے کی جانب بڑھ چکی تھیں۔
گزشتہ اتوار کو تیگرائی مزاحمت کاروں کو الٹی میٹم دیا گیا تھا کہ وہ ہتھیار پھینک دیں یا پھر بڑے حملے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ حکومت کی تین روزہ دھمکی کی مہلت بدھ کو ختم ہو چکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ میکیلے پانچ لاکھ آبادی کا ایک بڑا شہر ہے۔
ایتھوپیا کے انتہائی شمالی علاقے تیگرائی میں حکومت مخالف مزاحمتی عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے آبی احمد حکومت نے چار نومبر سے فوجی مشن شروع کر رکھا ہے۔ اس کی فوری وجہ تیگرائی باغیوں کا ملکی فوج کی شمالی کمانڈ پر کیا گیا حملہ تھا۔ اس حملے میں کئی افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اس حملے کے حوالے سے محاذِ آزادی تیگرائی کا کہنا تھا کہ یہ ایک دفاعی کارروائی تھی۔
اس مسلح تنازعے کی وجہ سے تیس ہزار افراد مہاجرت کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ افراد ایتھوپیا کے ہمسایہ ملک سوڈان کے سرحدی قصبے میں خیموں میں مقیم ہیں۔ افریقی یونین کی مصالحتی کوششوں کو وزیر اعظم آبی احمد کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔ دوسری جانب افریقی یونین نے اس تنازعے کے حل کے لیے ایک خصوصی ایلچی بھی مقرر کر رکھا ہے۔