فرانس : استاد کے قتل کے بعد 200مشتبہ شدت پسندوں کو بیدخل کرنے پر غور

0
200

کلاس میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے پر استاد کے قتل کے بعد یہ اطلاعات ہیں کہ فرانس مشتبہ مذہبی شدت پسندوں کی ایک واچ لسٹ پر موجود دو سو کے قریب غیر ملکیوں کو ملک سے بے دخل کر سکتا ہے۔

فرانس میں ایک کلاس میں ایک استاد کے قتل کے بعد یہ اطلاعات ہیں کہ فرانس مشتبہ مذہبی شدت پسندوں کی ایک واچ لسٹ پر موجود دو سو کے قریب غیر ملکیوں کو ملک سے بے دخل کر سکتا ہے۔

فرانس کی وزیر داخلہ کے مطابق کئی مزید پولیس کاروائیوں کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔

سمیوئیل پیٹی نامی استاد نے رواں ماہ کے آغاز پر اپنی کلاس میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے۔ جمعے کو انہیں پیرس کے قریب واقع اپنے سکول کے باہر ایک اٹھارہ سالہ شخص نے ہلاک کر دیا تھا جو خود بھی پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا تھا۔

انسداد دہشتگردی کے فرانسیسی وکیل جین فرانکوس رچرڈ کے مطابق قتل کی وجوہات جاننے کے لیے کی جانے والی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔

فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانین کا سوموار کو کہنا تھا: ’پولیس نے کئی کارروائیاں کی ہیں اور دسیوں مشتبہ افراد کے خلاف اور بھی کی جائیں گی۔‘

ان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانسیسی پولیس کے ایک ذرائع کے مطابق فرانس 231 غیر ملکی افراد کو بے دخل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ تمام افراد مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر حکومتی واچ لسٹ کا حصہ ہیں۔

ڈرمانین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی کچھ تنظیموں کو نفرت اور تشدد کو بڑھاوا دینے کے الزامات کے بعد تحلیل کر دینا چاہیے یا نہیں۔

فرانسیسی وزارت داخلہ کے ریڈیو سٹیشن ’یورپ ون‘ کو بتایا کہ اس وقت ملک میں آن لائن نفرت انگیزی کے حوالے سے 80 تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اتوار کو فرانس میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کی اور استاد سموئیل پیٹی کو خراج تحسین پیش کیا جو کہ شمالی پیرس کے مضافات میں کونفلانز سینٹ ہونارئن میں تاریخ اور جغرافیہ کے استاد تھے۔

اتوار کو ہی فرانسیسی حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس قتل سے تعلق کے شعبے میں گیارویں شخص کو گرفتار کیا ہے۔ یہ قتل ماسکو میں پیدا ہونے والے چیچن نژاد 18 سالہ شخص نے کیا تھا جو فرانس کے شمال مغرب میں واقع ایورو کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔

فرانسیسی انٹیلی جنس حکام اس شخص کے حوالے سے لا علم تھے۔

اس قتل نے فرانس میں سنسی پھیلا دی اور پانچ سال قبل مزاحیہ میگزین ’چارلی ہیبدو‘ پر کارٹون شائع کرنے کے بعد ہونے والے حملے کی یاد تازہ کر دی۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب چند ہفتے قبل ہی پیرس میں ’چارلی ہیبدو‘ کے پرانے دفاتر کے باہرایک پاکستانی نے دو افراد پر چاقو سے حملہ کرکے زخمی کردیا تھا اور اس کی والد نے کہا کہ میرے بیٹے نے صحیح اقدام اٹھا یاہے ۔

پاکستانی حملہ آور نے یہ حملہ میگزین کی جانب سے 2015 میں حملے سے قبل شائع کیے جانے والے کارٹون دوبارہ شائع کرنے پر مشتعل ہو کر کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here