روس و یوکرین مابین جنگ کا فیصلہ نئے سال 2025 میں ہو جائیگا، زیلنسکی

0
16

یوکرین میں روسی صدر پوٹن کے حکم پر کی گئی فوجی مداخلت کے ایک ہزار دن پورے ہو جانے کے موقع پر یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ ماسکو اور کییف کے مابین جنگ میں یہ فیصلہ نئے سال 2025ء میں ہو جائے گا کہ یہ جنگ کون جیتے گا۔

ماسکو کے فوجی دستوں کی طرف سے روس کے ہمسایہ ملک یوکرین میں کی جانے والے مسلح مداخلت کے منگل 19 نومبر کے روز ٹھیک ایک ہزار دن مکمل ہو گئے۔ اس موقع پر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کییف میں ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے آج کہا کہ قریب ڈیڑھ ماہ بعد شروع ہونے والا نیا سال 2025ء یہ فیصلہ کر دے گا کہ روسی یوکرینی جنگ کا فاتح کون سا ملک ہو گا۔

صدر زیلنسکی نے ارکان پارلیمان سے اپنے خطاب میں اپنی طرف سے ثابت قدمی پر مبنی ایک مزاحمتی منصوبہ‘‘ بھی پیش کیا اور ساتھ ہی کہا کہ کییف کی ماسکو کے خلاف جنگ اب اپنے فیصلہ دور میں شامل ہونے کو ہے۔

روسی یوکرینی جنگ میں اس وقت بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ابھی حال ہی میں کییف حکومت کو یہ اجازت دے دی تھی کہ اس کی مسلح افواج واشنگٹن کی طرف سے فراہم کردہ میزائلوں کے ساتھ روس کے اندر تک حملے کر سکتی ہیں۔

اس پس منظر میں یوکرینی صدر زیلنسکی نے ملکی پارلیمان سے اپنے خطاب میں آج کہا، اس جنگ کے فیصلہ کن مراحل میں، جو کہ اگلے ہمارے سامنے ہوں گے، ہمیں دنیا بھر میں کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دینا چاہیے کہ وہ ایک پوری اور متحدہ ریاست کے طور پر ہماری ثابت قدمی اور ہمارے مزاحتمی عزم پر کوئی شبہ کرے۔‘‘

وولودیمیر زیلنسکی نے اپنے خطاب میں مزید کہا، یہ جنگ صرف پوکرووسک، کوپیانسک، یا کسی بھی دوسرے شہر، قصبے، خطے یا گاؤں کے لیے لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ جنگ پورے یوکرین کے لیے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ یہ پورے یورپ کے لیے لڑی جانے والی جنگ بھی ہے۔ یہ اس لیے بھی لڑی جا رہی ہے کہ طے ہو سکے کہ دنیا میں کوئی نظم رہے گا یا پھر بدنظمی۔‘‘

روس اور یوکرین کی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں یوں تو گزشتہ کئی دنوں سے کافی تیزی آ چکی ہے، تاہم منگل کے روز اس خونریز تنازعے کے 1000 دن مکمل ہونے کے موقع پر جنگی فریقین کے ایک دوسرے پر حملوں میں اور بھی تیزی دیکھی گئی۔

یوکرینی فوج کے جنرل سٹاف کے مطابق کییف کی مسلح افواج نے گزشتہ رات یوکرین کے ساتھ سرحد سے دور روسی علاقے بریانسک میں فوجی گولہ بارود کی ایک ذخیرہ گاہ کو گولہ باری کا نشانہ بنایا۔

دوسری طرف یوکرینی میڈیا نے ملکی فوج کے ذرائع کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بریانسک پر اس یوکرینی حملے میں امریکہ کے فراہم کردہ ATACMS میزائل پہلی مرتبہ استعمال کیے گئے۔

یوکرین کی طرف سے ان امریکی میزائلوں کے ذریعے روس کے اندر تک کیے جانے والے حملوں کی تقریباً سبھی بین الاقومی میڈیا اداروں نے بھی اطلاعات دی ہیں۔ تاہم آخری خبریں آنے تک یوکرین نے باقاعدہ طور پر تصدیق نہیں کی تھی کہ کییف کی مسلح افواج نے پہلی بار روس کے خلاف مختصر فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائل استعمال کیے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here