پاکستانی مقبوضہ کشمیر: کٹھ پتلی وزیراعظم کا مظاہرین کو مذاکرات کی دعوت

0
91

پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے ریاست میں جاری پر امن مظاہروں پر،پرتشدد واقعات کو روکنے کے لئے عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

پاکستان کے دارلحکومت اسلام میں کشمیر ہاؤس سے ہفتے کو رات گئے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے انوار الحق نے کہا کہ پولیس و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تحمل اور طاقت کے استعمال سے گریز کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے لیکن اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ایک پولیس اہل کار ہلاک گیا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں کمی اور آٹے کی قیمت میں سبسڈی کی فراہمی کے لیے ہفتے کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے پُرتشدد شکل اختیار کر گئے۔

پرتشدد احتجاج کے بعدکٹھ پتلی وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں ریلیف سمیت جس بھی مطالبے پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے بات چیت کے لیے حکومت کھلے دل سے تیار ہے۔

ان کے بقول عوامی ایکشن کمیٹی جس سطح پر بھی مذاکرات کرنا چاہتی ہے، وہ آئے، بات چیت سے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔

انوار الحق نے کہا کہ حکومت اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے نتیجے میں آٹا اور بجلی کی قیمتوں پر مزید ریلیف دینے کو تیار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آٹا اور بجلی پر عوام کو ریلیف دینے کے لیے اگر حکومت کو ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا پڑھا تو وہ بھی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے پاکستان کی حکومت اور وفاقی وزارت توانائی و آبی وسائل کے ساتھ بات چیت میں میں 90 فیصد معاملات پہلے سے طے پا چکے ہیں اور انہیں جلد حتمی شکل دی جائے گی۔

انوار الحق نے کہا کہ بھارت کے وزیر دفاع اعلانیہ کہتے ہیں کہ پاکستانی کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات میں ان کا کردار ہے، لہذا حکومت احتجاج کے دوران اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتے اور ہر سطح پر تحمل کا مظاہرہ کریں گے، لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کے فرائض سے غافل نہیں ہوں گے۔

مظفر آباد، میرپور، کوٹلی، راولا کوٹ اور دیگر علاقوں میں گزشتہ دو روز سے پہیہ جام ہڑتال کی جا رہی ہے اور ہفتے کو عوامی ایکشن کمیٹی نے مظفر آباد کی جانب مارچ کی جانب مارچ کا آغاز کیا۔

مارچ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ایک پولیس سب انسپکٹر عدنان فاروق سمیت ایک طالبہ ہلاک اور 50 زخمی ہو گئے جبکہ شیلنگ و تشدداور پولیس سے تصادم وباگ دوڑ بھی ہلاکتوں کی اطلاعات سامنےآئی ہیں لیکن ابھی تک تصدیق نہیں ہوسکی ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ کشمیر کے مختلف شہروں سے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب مارچ کر رہے ہیں اور وہ پولیس کی طرف سے جگہ جگہ کھڑی رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

ایکشن کمیٹی نے بجلی کی قیمت میں کمی، آٹے پر سبسڈی، پراپرٹی پر ٹیکس، روزگار کے مواقع، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی جیسے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں ہفتے کو مظفر آباد میں احتجاج اور دھرنے کی کال دی تھی۔

حکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لیے مظفر آباد سمیت دیگر اضلاع کے داخلی و خارجی راستے بند کر دیے تھے۔ تاہم رکاوٹوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلے اور کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوا۔

مظفر آباد، ڈھڈیال، کوٹلی اور دیگر علاقوں میں گزشتہ دو روز سے نظامِ زندگی معطل اور پہیہ جام ہڑتال کی جا رہی ہے۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہفتے کو جھڑپوں کے نتیجے میں ایک پولیس سب انسپکٹر عدنان فاروق ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے جب کہ پولیس نے 100 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مظفر آباد میں پولیس کے مرکزی کنٹرول روم کے مطابق کوٹلی کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال میں 40 زخمیوں کو لایا گیا ہے جن میں 12 پولیس اہل کار اور دیگر مظاہرین شامل ہیں۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ مظفر آباد میں پولیس کے تشدد سے 36 افراد زخمی ہوئے اور 60 کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم ڈپٹی کمشنر مظفر آباد ندیم جنجوعہ نے 28 افراد کی حراست کی تصدیق کی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here