فیض آباد دھرنا کیس: کمیشن کا مینڈیٹ فیض حمید کو بری کرنا تھا، چیف جسٹس

0
97

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ رپورٹ تیار کرنے والوں کے ذہن میں کیا تھا اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اُن کی ذمہ داری کیا تھی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے رپورٹ کا مقصد سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا۔

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو شاید نو مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، کسی کو پروا ہی نہیں۔ آگ لگاؤ، مارو، یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے۔ جب پاکستان بنا تو بتائیں کہ کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔

پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی جس میں اس دھرنے سے متعلق بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔

سماعت میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمے داری کیا تھی۔ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمے داری نہیں۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ان کی ذمے داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمے داری ہے؟ رپورٹ کے ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں مالی معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمے داری نہیں۔ دوسرے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں کہ ٹی ایل پی کی مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ڈی جی سی آ کر کہہ گیا کہ میرا یہ مینڈیٹ ہی نہیں۔ یہ مینڈیٹ نہیں تو پھر رپورٹ میں لکھنا چاہیے تھا۔ آپ آؤٹ آف وے جا کر ان کا ذکر کر رہے ہیں، پھر آپ آؤٹ آف وے جا کر ان کو بری کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمے دار نہیں بلکہ پنجاب حکومت ذمے دار ہے۔ پنجاب حکومت رانا ثناءاللہ چلا رہے تھے وہی ذمے دار ہیں۔ کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی۔ کمیشن کیسے کہہ سکتا ہے کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کمیشن کو کس بات کا خوف تھا؟ انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔ ساری رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف لکھ دی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بلوچستان میں آئی ایس آئی کے کہنے پر امپورٹر ایکسپورٹر کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے۔ یہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا مینڈیٹ ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنا نقصان ہوا، سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں۔ مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ۔ یہ کیا طریقہ کار ہے؟ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں بس آگے بڑھو۔ ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کمیشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔ آپ لوگوں کا تو کام تھا کہ ذمے دار کا تعین کریں، انکوائری کمیشن نے پارلیمان اور عدالت کی پاور لی مگر جو کام کرنا تھا وہ نہیں کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں۔ یہ کہنے کے لیے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو نو مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمیشن والے لوگ پتا نہیں پولیس میں کیسے رہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا کہ چوری تو نہیں کی؟ درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے۔ کیا خوب صورت اتفاق تھا کہ اتنی نظرِ ثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں۔ کسی نے تو اس کی منظوری دی ہوگی، وکیل کیا ہوگا۔ سارا ریکارڈ کہاں ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟ شاید ٹی ایل پی والے ہی کمیشن کی معاونت کر دیتے۔ ٹی ایل پی کو بلاتے ہوئے شاید کمیشن کے ارکان کو ڈر لگ رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا مؤقف لے لیتے۔ رانا ثنا اللہ کا لکھ دیا کہ وہ پنجاب حکومت کی کمیٹی کے سربراہ تھے اور کچھ نہیں کیا۔ شاید انکوائری کمیشن کو رانا ثنا اللہ سے کوئی مسئلہ تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض حمید نے بیان میں کہا کہ آئی ایس آئی نے دھرنے کے لیے فنڈنگ نہیں کی۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیض حمید نے یہ فتویٰ دیا اور کمیشن والوں نے مان لیا۔ کیا فیض حمید کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو سوال نامہ بھیجا تھا جس کا جواب آیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو بلانے کی جرأت تک نہیں کی؟ کمیشن نے تو اپنے فیصلے میں فیض حمید کا نام تک نہیں لکھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here