نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) اور یو این ویمن نے خواتین کی پناہ گاہوں کی حالت پر ایک جامع رپورٹ “پناہ گاہوں سے زیادہ ، پاکستان میں دارالامان اور پناہ گاہوں کی ضرویات کا جائزہ” جاری کی ہے ۔
یہ رپورٹ وسیع تحقیق، جامع معائنہ اور پناہ گاہوں کے رہائشیوں کے آن سائٹ انٹرویوز پر مبنی ہے۔
اس رپورٹ میں پالیسیوں کے نفاذ اور بجٹ میں موجود خامیوں کی نشاندہی پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ضروری خدمات فراہم کرنے کیلئے قابل عمل سفارشات پیش کی گئیں ہیں ۔
اس سلسلے میں ”جنسی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی سرگرمی ” اور 2023 کی تھیم ”خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کی روک تھام ”کی مناسبت سے لانچ ایونٹ کا انعقاد کیا گیا ۔
اس ایونٹ میں حکومتی اداروں، سول سوسائٹی، خواتین کے گروپس اور بین الاقوامی کمیونٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
دارالامان میں رہنے والوں سے کیے گئے انٹرویوز سے یہ بات سامنے آئی کہ یہاں مقیم سب سے بڑا گروپ (70 فیصد) 14 سے 30 سال کی عمر کی نوجوان خواتین پر مشتمل ہے اور ان میں سے زیادہ تر خواتین ناخواندہ ہیں اور 92 فیصد کی شادی 20 سال کی عمر سے پہلے ہی ہو چکی تھی اورتقریبا سبھی کو جسمانی، نفسیاتی، جنسی اور مالی استحصال سمیت متعدد قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
تمام صوبوں میں دارالامان کے معائنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان پناہ گاہوں کا ماحول تسلی بخش نہیں پایا گیا جبکہ اندرونی جگہوں کی حالت بھی عام طور پر اچھی نہیں تھی جبکہ کچھ پناہ گاہوں میں مہمانوں کے کمرے، علیحدہ مشاورتی کمرے یا لائبریریاں موجود نہیں تھیں۔ ۔ تمام پناہ گاہوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات اور ماہر نفسیات دستیاب نہیں ہیں ۔
اس کے علاوہ پناہ گاہوں میں شکایت سے نمٹنے کا کوئی منظم طریقہ کار یا بحالی کا پروگرام نہیں ہے اور بڑے پیمانے پر پیشہ ورانہ تربیت کی کمی کو محسوس کیا گیا۔ عام طور پر مکینوں کے بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پوری طرح سےسہولیات موجود نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ چار پناہ گاہوں میں میڈیکل آفیسر، ماہر نفسیات، اسسٹنٹ اور کمپیوٹر آپریٹر کی آسامیاں خالی ہیں۔
رپورٹ میں قانون سازی اور پالیسیاں بنانے کیلئے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں تمام پناہ گاہوں کے لیےمخصوص صوبائی ضروریات کے مطابق اور صوبائی سطح پر گھریلو تشدد کے قوانین کے نفاذ کے لیے مضبوط نگرانی کے طریقہ کار کی بنیاد پر نظرثانی شدہ ای س او پی تجویز کی گئیں ہیں۔
رپورٹ میں خواتین کے لیے موزوں پناہ گاہوں کے بنیادی ڈھانچے کے لیے بجٹ میں مختص رقم پر نظرثانی کرنے اور اضافے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں تشدد سے بچ جانے والوں کے لیے گھریلو ماحول اورپناہ گاہوں تک رسائی کو یقینی بنانے اور صوبائی سطح پر ایک ہیلپ لائن بنانے اور ظلم سے بچ جانے والوں کی مدد کے لیے شکایت سے نمٹنے کا ایک طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے ۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق خلیل جارج نے کہا کہ خواتین کی پناہ گاہیں خواتین پر تشدد کے خلاف جامع ردعمل کا لازمی جزو ہیں۔
دارالامان کے بارے میں این سی ایچ آر کی رپورٹ میں کچھ اہم مسائل کا انکشاف ہوا ہے۔ خواتین کی پناہ گاہوں کی دستیابی اور ان تک بہتر رسائی ایک فوری حل طلب معاملہ ہے۔
چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا کا اس بارے میں کہنا تھا کہ دارالامان خواتین اور ان کے بچوں کو تشدد سے بازیاب ہونے، خود اعتمادی کو بحال کرنے اور خود مختار زندگی دوبارہ حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔تاہم، پاکستان میں اس مطالعے کے ذریعے ظلم بچ جانے کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ دارالامان میں سہولیات کا فقدان موجود ہے ۔دارالامان میں تحفظ، خدمات اور وسائل کا دستیاب ہونا بیحد ضروری ہے ۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کی خواتین کی کنٹری نمائندہ شرمیلا رسول نے پناہ گاہوں کے لیے ضروری خدمات کوبہتر بنانے میں یواین وومن کے کردار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ رپورٹ نہ صرف چیلنجز پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ بہتری کے لیے روڈ میپ بھی پیش کرتی ہے۔ اقوام متحدہ خواتین کی پناہ گاہوں میں خواتین کے حقوق اور بہبود کی وکالت کرتے ہوئے مثبت تبدیلی لانے کے لیے تیار ہے ۔ہم ا یسی پناہ گاہیں بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر عورت پناہ حاصل کر سکے، اپنی زندگی کی تعمیر نو کر سکے اور پھل پھول سکے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ رپورٹ بامعنی اصلاحات اور ایک مضبوط نظام کی حمایت کرنے میں ایک قیمتی وسیلہ کے طور پر کام کرے گی اور اب پناہ گاہوں مقیم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ان کی بہبود کیلئے بھی بہتر انداز سے کام کیا جاسکے گا۔