بلوچ نسل کشی اور عوامی طاقت کا اظہار | ظہیر بلوچ

0
279

گذشتہ کچھ دنوں سے بلوچستان میں خاص کر مکران میں سی ٹی ڈی مست بے لگام گھوڑےکی طرح ہر چیز کو روند رہی ہے جسکی وجہ سے بلو چ نسل کشی میں تیزی کا رحجان دیکھنے کو مل رہا ہے، کچھ دن قبل پاکستان آرمی پر مشتمل فرضی نام سی ٹی ڈی کے ذریعے ایک کار بم دھماکے میں اڑاکر تین جبری گمشدہ فرزندوں کو شہید کرکے ایک حادثہ قرار دینے کی ناکام کوشش کی اور اس واقعے کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ چار گرفتار بلوچ فرزندوں کو سی ٹی ڈی نے شہید کرکے جعلی مقابلے کا نام دیا جو نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ بلوچ نسل کشی میں تیزی کا رحجان ہے۔

بلوچ نسل کشی دو دہائیوں سے جاری ہے۔ جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبریں، جعلی مقابلے یہاں تک کہ حالی واقعات میں جبری گمشدہ افراد کو بم دھماکے میں شہید کرکے نسل کشی کو ایک نیا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی جس کا مقصد ایک خوف کی فضاء قائم کرکے بلوچ قوم کو مزاحمت سے دور رکھنا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سچ کو دبایا نہیں جاسکتا۔ سچ کسی نہ کسی شکل میں ابھر کر سامنے ہی آجاتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان نے اپنے ظلم و بربریت سے بلوچستان میں خوف کی فضاء کو جنم دیا ہے اور اسی خوف اور ہماری خاموشی کا فائدہ اٹھا کر ریاست نسل کشی میں تیزی لارہی ہے اور مستقبل میں بلوچ نسل کشی مزید منصوبے کے تحت تیز اور مضبوط ہوگی ، ہر مقام پر بلوچوں کی جبری گمشدگی اور لاشوں کی بر آمدگی میں تیزی لائی جائے گی۔

بلوچ قوم سیاسی مزاحمت کریں یا مسلح مزاحمت، بلوچ کسی محکمے میں نوکری کریں یا پارلیمنٹ کی سیاست، ریاست پاکستان کے سامنے اسکی حیثیت صرف ایک غلام قوم کی ہے اور غلاموں کے مقدر کا فیصلہ مقتدرہ طاقتوں کے ہاتھوں میں ہی ہے۔ صرف مقدر ہی نہیں بلکہ اسکی زندگی اور موت کا فیصلہ بھی انہی آقاؤں کے ہاتھوں میں ہے۔ بس مزاحمت کرنے والوں اور مزاحمت سے دور رہنے والوں میں یہ فرق ہے کہ مزاحمت سے منسلک افراد اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ خود کرتے ہیں جب کہ مزاحمت سے دور رہنے والے کو خبر ہونا چاہئے وہ بھی بے موت مرجاتے ہیں ۔

بلوچ قوم یہ جان لیں کہ اسکے پاس مزاحمت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، مزاحمت کے ذریعے ہی وہ اپنی زندگی اور موت کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف بند باندھ کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔

سیاسی قوتوں کو چاہئیے کہ وہ سیاسی حکمت عملی ترتیب دیکر نسل کشی کا راستہ روکنے کی کوشش کریں اور عوام کو چاہئیے کہ وہ سیاسی قوتوں کے شانہ بشانہ رہ کر سیاسی و مزاحمتی جدوجہد کو مضبوط بنائیں تاکہ نسل کشی کو روکا جاسکے۔

بلوچستان کے تمام بلوچ اس نسل کشی کے خلاف یکجاء ہو کر موثر آواز اٹھائیں۔ نہ صرف تربت ،کراچی اور کوئٹہ بلکہ بلوچستان کے تمام شہروں اور قریہ قریہ احتجاجی مظاہرے، شٹر ڈاون ہڑتال، پہیہ جام ہڑتال اور سول نا فرمانی جیسی تحریکوں کے ذریعے اپنی عوامی طاقت کا اظہار کریں ’’ خاص کر سول نافرمائی جیسی تحریک کےلئے بلوچ آزادی پسند تما م پارٹیوں مسلح اور غیر مسلح قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہواگا۔اگر عوامی طاقت کے اظہار کے بجائے ہم نے خاموشی اختیار کی اور یونہی منتشر رہے تو لاشیں گرتی رہیں گی اور ہماری منتشر احتجاجی پروگرامز نسل کشی روکنے کے بجائے مزید شدت کا باعث بنیں گی۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here