عوامی طاقت کی ضرورت | کمال بلوچ

0
201

جد وجہد آزادی میں انسانی سروں کی قربانی سمیت ہر ایک چیز کا سبق ہمیں عظیم جہد کاروں سے ملا ہے مگر وہ مزاحمت کی راہ ہے جس کی بدولت ہم بڑے سے بڑے مصیبت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ جب آزادی کی بات ہوتی ہے تو ہمیں سب سے زیادہ بلوچستان نظر آتا ہے۔ جس کی تاریخ سے ہم آشنا ہیں ،اس قوم میں ایک روایت رہی ہے جس نے زورآور کے سامنے سرخم تسلیم نہیں کیاہے اسی روایت نےبلوچ قوم کو اس خطے کے باقی نسلوں سے منفرد رکھا ہے۔

بد قسمتی کہیں یا کچھ اور طویل غلامی نے بلوچ روایات کوروند کر رکھا ہے لیکن کچھ پڑھے لکھے نام نہاد سیاست دان اپنےرسم و رواج کو کو تاراج کررہے ہیں۔ اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے ان کی دیکھا دیکھی اپنی تاریخی حیثیت کو فراموش کردیاہے۔ مفاد پر ست رہے ہیں یا کچھ اور لیکن انہوں نے راہ مزاحمت سے راہ فرار اختیار کردیا ہے جس کی قیمت بلوچ ادا کررہی ہے۔

خاص کر ہم دوہزار کے بعد کی تاریخ کو پڑھیں جہاں یہ تاریخی تبدیلی دیکھنے کو مل چکی ہے۔ بلوچ نے اپنی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کےلئے جنگ کی راہ اپنا لی ہے۔ اس جنگ نے بلوچ روایات اور کلچر کو پھر سے زندہ کیا ہے۔ با عزت اور تاریخ سے روشناس لوگوں نے اس راہ کو تاریخی راہ کا نام دے کر اس کے لئے خود کو قربان کرنے کا فلسفے کو اپنایا۔

ویسے جنگ جیتنے کےلئے لڑی جاتی ہے مگر یہ حقیقت ہے خود کو زندہ رکھنے کےلئے بھی جنگ لڑی جاتی ہے ۔آج بلوچ کا جنگ پوری دنیا کے سامنے ایک طاقت بنکر سامنے آئی ہے اوراس جنگ کے مخالف میں کچھ لوگوں کا جنم بھی ہو چکا ہے۔

اسی لئے ان کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے یہ پڑھے لکھے جاہل ہیں جن کو مفادات کی دنیا کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ہے ۔یہ اپنی چھوٹی چھوٹی مفادات کے لئے قوم کو بے حس کرنے کی بھر پور کوشش میں لگے ہوئےہیں، یہ خود اچھے طرح جانتے ہیں ہمیں جتنی بھی مراعات مل رہی ہیں، یہی مزاحمت کی بدولت ہے مگر قوم کے سامنے کبھی یہ بول نہیں پاتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے قوم کو بے حس کرنے کےلئے پوری قیمت وصول کی ہے۔

میں حیران اس بات پر ہوں کہ کچھ دانشور کہتےہیں اب ہر کوچہ کوچہ بلوچ مزاحمت سے آگاہ ہے اور مزاحمت کی راہ اپناچکے ہیں لیکن ایک مزاحمت باقی ہے جسے عوامی مزاحمت کہتے ہیں جو گلی اور کوچوں میں لڑی جاتی ہے ا س کی کمی نظر آرہی ہے ہمارے آنکھوں کے سامنے ہمیں پاکستان گرفتار کرکے پھر ہماری لاش ویرانوں میں پھنکتی ہےلیکن اس کو روکنے کےلئے عوام کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔عوام کو اپنے گھروں سے نکلنا پڑیگا۔

اگر ہم خاموشی سے اپنے شہیدوں کی جسد خاکی کو لحد میں اتار کر اپنے گھروں کو روانہ ہونگے تو پاکستان ہمیں روز یوں ہی قتل کرتا رہے گا یہ کافی نہیں ہے کیوں اپنے آنے والے نسل کو تباہ کرنے جارہے ہیں کیوں کہ مزاحمت کی راہ کوعوامی صورت میں نہیں اپنا رہے ہیں اب ہمیں یقین ہونا چاہیئے پاکستانی عدالت کی کو ئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ عدالت ریاست کے سامنے بےبس ہے یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں انکے عدالتوں کی حکم پر ریمانڈ پر لے جانے والے بھی انکائونٹر کے نام پر قتل ہورہے ہیں۔

بالاچ کو ریمانڈ پر لے جاکر فیک انکائونٹر کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ اب بھی ہم ان لوگوں کے باتوں پر نہیں آئیں جو گرفتار شدہ بلوچ فرزند کے خانداں سے یہ کہتے ہیں کہ خاموشی اختیار کریں، آپ کے فرزند کو ہم رہا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔یہ دراصل ان لوگوں کو دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ،یہ لوگ ریاست کی طرف تیار کردہ لوگ ہیں جو چھوٹی سی مفادات کے لئے یہ سب کررہے ہیں لوگوں کواپنے گھر سے باہر نکلنے کے لئے روک لیتے ہیں ،ہمیں سبق لینا ہوگا ایسے کرنے سے ہمیں ہمارے فرزندوں کے لاش کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔

بات ایک ہی باقی ہے ہمیں مزاحمت کرنا ہوگا اُس وقت تک جب بلوچ فرزند زندہ سلامت انکے اذیت گاہوں سے بازیاب نہیں ہوتے ۔ہمیں خود کو دھوکے میں رکھنے کے بجائے مزاحمت کو ترجیح دینا ہوگا۔آپ لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے کی کو شش کر تا ہوں۔ عوامی مزاحمت میں بہت بڑی طاقت ہوتی ہےآپ کو یاد ہو گا جب ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اور اُس کے ساتھیوں کو ۲۰۰۵کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تو گرفتاریوں کے خلاف پوری بلوچستان نے بہ یک آواز ہوکر صدا بلند کی ۔اس کے بعد کچھ مہینوں میں وہ انکے دوست بازیاب ہوئے ، اور بہت سارے مثال موجود ہیں۔ حال ہی میں عبدالمجید زہری کے بچوں کا احتجاج دیکھ لیں کہنے کا مقصد یہی ہے ہمیں اپنے گھروں سے باہر نکلنا ہوگا۔

اب تک بلوچوں نے وہ تشدد دیکھی ہے جوشاید دنیا میںکسی نے نہ دیکھا ہو محض کتابوں میں پڑھاہو۔ بلوچستان میں ریاستی ظلم وبربریت ہرروز ہمیں اور آپ کو دیکھنے کو ملتا ہے، بلوچ حتی کہ بلوچ بچوں اور بزرگوں کو جہاز سے پھینک دیا گیا ہے یہ کوئی ناول کا قصہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے ۔کوہلو اور مشکے میں ۱۹۷۱میں یہ عمل ہوئے ہیں۔اجتمامی قبریں ملی ہے زندہ لوگوں کو قبروں میں ڈال کے مٹی سے بھردی گئی ہے، ٹارگٹ کلنگ ہوتے ہوئے دیکھے ہیں، گرفتار شدہ دوستوں کی بوری بند لاش دیکھی ہے۔ ان کے فیک انکاونٹر ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ طرح طرح کے طریقے سے بلوچ نسل کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ حتیٰ کہ اب ریاست نئے ڈرامہ کررہی ہے جیسے آپ لوگوں کو معلوم ہے حال ہی میں تین بلوچ بچوں کو ایک گاڑی میں ڈال کر انکو بم سے اڑا دیا گیا ،ایسے عمل کے ذریعے بلوچستان میں نسل کش پالیسیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کرتاہوں کہ نام نہاد قوم پرستی کے دعویدار دراصل پاکستان کی بقاء کی سیاست کررہے ہیں۔نیشنل پارٹی ہو یا بلوچستان نیشنل پارٹی یا دیگر پارٹیاں جو صرف آنے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف عمل ہو کر بلوچ کا نام استعمال کررہے ہیں۔گزشتہ چند مہینوں سے سینکڑوں بلوچ جبری طور پر گرفتار ہوئے ہیں، صرف ایک ہفتہ میں مکران سے سات بلوچ فرزندوں کی لاش ہمیں ملی ہے، تین کو بم سے اڑایاگیا اور چار کو ٹارگٹ کرکے قتل کیاگیا یہ سب پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلوں میں قید رہے ہیں جن کولا کر قتل کیا گیا مگر ان پارٹیوں کی خاموشی اس بات کو ظاہر کرتا ہے یہ پہلے ایسے عمل میں ساتھ رہےہیں اب بھی ساتھ ہیں یہ خود بلوچ نسل کشی کے برابر کے شریک ہیں مجھے یہ بھی یقین ہے انکو ٹشوپیپر سمجھ کر بعد میں ردی میں ریاست پھینک دے گی ان کو سمجھنا چاہیئے کہ وہ بلوچوں کے صفحے میں کھڑے رہے یہ ریاست تمھارے لئے وہی سوچ رکھتی ہے جو باقی بلوچوں کے ساتھ رکھ رہے ہیں۔

بلوچ عوام کو چاہیئےکہ اپنی بےحسی کو ختم کرے اور عوامی مزاحمت کی راہ اپنا لیں جس سے پاکستانی آرمی کے ہاتھوں اپنے آنے والے نسل کی تحفظ کرسکیں ورنہ تاریخ ہمیں بزدل کے نام سے یاد کرے گی۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری تاریخ سے ہماری نسل نفرت کرے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here