بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی تنقیدو پروپیگنڈے کی اہمیت و افادیت اور اس کی خصوصیات پر ایک مدلل لیکچر جو مورخہ27جولائی2013کوسرمچاروں اور جہدکاروں کے ایک دیوان میں دیا گیا تھا اور سنگر کے سمتمبر 2013 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ قارئین کی اسرار پر اسے سنگر آن لائن پر دوبارہ پیش کیا جارہا ہے ۔ ( ادارہ سنگر)
بلوچی سے ترجمہ: توکل بلوچ
تنقید کیا ہے؟
بنیادی طور پر تنقید کے دوا قسام ہیں۔
(۱)تنقید برائے تعمیر (۲)تنقید برائے تنقید
(۱)تنقید برائے تعمیر وہ ہے جس میں تنظیم ،پارٹی یا ساتھی کی اصلاح کی جاتی ہے۔جہاں کہیں بھی کمزوری پائی جاتی ہو،خواہ وہ تنظیم کے یونٹ یا دمگ ہو یا کمانڈ ،سب کمانڈ ،ایریا کمانڈ یا سینڑل کمانڈ ہو اس میں نشاندہی کی جاتی ہے کہ ہم میں یہ کمزوری یا ضعف ہے نشاندہی کرنے والے ساتھی اپنے متعلقہ رہبر، اپنے سنگت اپنے کامریڈ کو بتاتا ہے کہ جی اگر پائے جانے والے کمزوریوں پر قابو نہیں پایا گیا تو ہمارے جدو جہد تنظیم یا پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔تعمیری وہی ہے کہ جس میں جو اخلاص اور نیک نیتی شامل ہو۔ تنقید کنندہ خود شعور و آگاہی کے اعلیٰ وارفع منازل طے کریںتو اپنے ساتھیوں یا تنظیم پر جب شعور ،پختگی اور آگاہی کی بنیاد پر تنقید کرتا ہے تو اس سے تنظیم کی اصلا ح ہوتی ہے اور تنظیم بتدریج خرابی یا کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے اور اپنے ممبراں کی بھی اصلاح کرتی ہے ۔ آگے چل کر اپنے پالیسوں پر مثبت انداز میں اصلاح کرتا ہے لیکن انداز یا طریقہ کار ایسا ہو کہ ساتھی اورہمراہوں کی دل آزاری نہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس سے جدوجہد او ر قوم کو فائدہ ملے،فرض کریں آج ہم یہاں نشست رکھتے ہیں ہم میں بیک وقت دو خصوصیت یا خوبی بہر طور موجود ہوں ،اول یہ کہ ہم بہترین سیاسی احساس، سیاسی سنچ یا سیاسی شعور کے مالک ہوں ، ہماری مسلح جدوجہد اور سیاسی شعور اس نہج پر ہو کہ ہم صحیح معنوں میں ریاست کا نعم البدل کا درجہ حاصل کرسکیں،ہر مزاحمت کار ،ہر آزادی پسند، آنے والے دنوںمیں اپنی وطن ،اپنی ریاست کا مالک ہوگا۔آزادی کی صورت میں اس ریاست کی جملہ سیاسی و انتظامی نظم و نسق ، اس کے قوانین، اس کی عسکری اور سول ادارے ہمیں اور ہماری لشکر کو بنانے ہوں گے۔اس لئے آج ہی سے ہم میں وہ تمام خوبیاں،مہارت اور صفات پیدا ہونے چائیں اور غیر سیاسی اور غیر انقلابی چیزوں سے اپنے تنظیم اورقوم کو بچا ئیں کیونکہ آئندہ میرے پارٹی،میرے ساتھیوں کو اس وطن کی باگ دوڑ سنبھالنے ہیں۔ہمارے لئے بیرونی دنیا سے کوئی نہیں آئے گا۔ گوکہ ہمارے پاس کمزوری اورطاقت، شعور اور لاشعوری ،معاملہ فہمی اور ناسمجھی دونوں موجو د تو ہیں لیکن ہم خوبی اور شعور و آگاہی کی جانب گامزن ہیں اور ساتھ ہی اپنے کمزوری یا کوتاہیوں پر گرفت حاصل کررہے ہیں۔ اسے تنقیدبرائے تعمیر کہتے ہیں یہی تنقید ایک ساتھی کی شخصیت کی تعمیر کرتاہے اور قوم کی تعمیر کرتاہے اور یہی تعمیری تنقید ساتھی ہمراہ کی شخصیت اور قوم کو تمام بری علتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
ّ
(۲)تنقید کا دوسر ا صفت اس کے برعکس محض تنقید برائے تنقید ہوتی ہے جوکہ تعمیر کی مخالفت اور تخریبی ہوتا ہے ، مثبت تنقید ہمہ وقت تعمیر کرتا ہے لیکن منفی تنقید سے سنگت یا ہمراہ ، قیادت یا تنظیم پر مُضراثرات مرتب ہوتے ہیں کہ دانستہ یا لاشعوری طور پر ایک چھوٹی سی غلطی کو پہاڑ بنا کر اور اس پر ضد قائم یا اسے اپنی عزت نفس کا معاملہ سمجھنا اور اس چھوٹی سی غلطی پر بڑی سے بڑی سزاکا مطالبہ مثبت شے نہیں ہے مثلاََکسی ساتھی سے کوئی پیالہ ٹوٹتا ہے یہ چیز تو اچھی نہیں ہے مگر قتل جتنی سزا کا مطالبہ جو کہ انسانی زندگی کا معاملہ ہے یہ مناسب اور تعمیری تنقید میں ہرگز نہیں آتا ہے بلکہ تخریب میں آتا ہے۔دوسری طرف آزادی کے جدوجہد میں وہ ساتھی اورہمراہ جو کہ آئندہ دنوں میں اپنا قومی جیت کر وطن کی مالک بن جاتے ہیںاُن کی ذہنوں میں انا، بغض اور ذاتی پسند اور ناپسند پیدا ہوتاہے تویہ تنقید تعمیر اور اصلاح کے لئے نہیں ہوتا ہے بلکہ تخریب کے لئے ہوتاہے ۔ کیونکہ ہم دانستہ یا نادانستہ اپنے کسی ساتھی اور ہمراہ کی اصلاح کے بجائے اُس کی شخصیت کو نشانہ بناتے ہیں تو ہم اسے متنازعہ بناتے ہیں لہٰذا اس کے شخصیت پر اچھے اور مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔
جب ہم دس یا بیس لوگوں کی موجودگی منفی تنقید کررہے ہوں تو یہی معاشرے کے اندر جاتے ہیں اور یہاں سے پروپیگینڈہ جنم لیتی ہے اور اس کے مضر اثرات ساتھی یا ہمراہ اور تنظیم کی صحت پر یکسا ں طور پر پڑتے ہیں اور ساتھیوں کی اُن صلاحیتوں پر بھی زد پڑتی ہے جو آزادی کی صورت نئے سماج کی تعمیر میں کارگر ہوسکتے ہیں یہ منفی اور تخریبی انداز ِ فکر ہے دیکھیں کہ ہمیشہ ہم انسان اور انسانیت کی بات کرتے ہیں اب تک انسان کو مکمل منصف ہونے کے لئے مزیدہزا روںسال درکار ہیں ۔اب تک انسان نامکمل ہے ،ذہنی ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے، اخلاقی ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود انسانی کمزوریاں ہیں ۔انہی کمزوری یا کوتاہیوں کے سد باب کے لئے ہزاروں سالوں سے عالم ،مفکر، سیاستدان ،جہد کار،انقلابی،جج،ریاست دان سب کوشش کررہے ہیں ۔مذہب کوشش کررہا ہے تو سیاستدان اور فلاسفر کوشش کر رہا ہے، ہم جہد کار بھی اپنی وس اور واک کے مطابق جہد وسعی کررہے ہیں لیکن انسان میں جوانسانی کمزوری ،انا ،خواہشات،لالچ کی صورت میںموجود ہے اب آپ کو اس کی خوبی اور خامیوں کا تقابلی جائزہ لینا چاہیے کہ کسی شخصیت میں کتنے فیصد وہ منفی چیزیں ہیں جو آپ کی جہد سے متصادم ہیں آپ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ساتھی کی انا ہے یا وہ کہتا ہے کہ اس کے عزت ِنفس کا معاملہ ہے جو کس قدر آپ کے جدو جہد سے متضاد ہے یہی چیز جو کہ آپ سے منسلک نہیں ہے آپ کے جدوجہد کے یکسر مخالف ہے ،دشمن آپ کے جدوجہد کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو آپ اس کی اصلاح کرتے ہیں، اس کے کمزوریوں اور کوتاہیوں کو آہستہ آہستہ ختم کرکے اسے اپنے دھارے میں شامل کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں نظرانداز کیا گیا ہے، عام خیال یہ ہے کہ اچھے آدمی نہیں ہیں، آپ تو اس کی ذہن سازی کرتے ہیں، اس کی صحت کی خیال داری کرتے ہیں اور اس کی تربیت او ر تعمیر کرتے ہیںتو وہ شخص معاشرے کا ایک ذمہ دار اور ہماری جدوجہد کا بہترین حصہ بن جاتا ہے ایسے بے شمار مثالیں ہماری تنظیم میں موجود ہیں ۔یہ سب مثبت تنقید اور اصلاح سے ممکن ہے ۔اگر صحت مند اوربالغ آدمی میں ایک انسانی کمزوری ہے، کوئی شخص جس کی عمر ۵۰ سال ہے اور پوری زندگی جدو جہد سے منسلک رہاہے ،اب اس کی ایک انسانی کمزوری کو اس طرح اٹھایا جائے کہ اسکی پوری شخصیت کو ڈھانا شروع کیا جائے اور بالغ انسان کے شخصیت کو منفی تنقید سے داغدار کرکے اسے متنازع کیا جائے تو یہ صحت مند علامات نہیں ہیں۔ آج جدوجہد اپنی منزل کی جانب تیزی سے بڑھ رہاہے ،اب آپ کی تنقید ہی جہد کی ترقی میں رکاوٹ بن جائے یا عظیم جدوجہد میں یہ بالکل مثبت شے نہیں ہے ،میں سمجھتاہوں کہ یہ جدو جہد اپنے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے اور انسان کی ذات اور اس کی شخصیت کے لئے بھی انتہائی نا مناسب ہے ۔ایک جہد کار اور عام لوگوں میں فرق ہونا چاہیے جہد کار جو کہ رہبری کر رہا ہے، تنظیم یا کسی ذیلی ادارے کی ۔دوسری طرف ایک وہی ہے جو پردے کے پیچھے بیٹھا ہے وہ صرف آپ کی رہبری کر رہا ہے وہ اب آپ کے لیے سوچتا ہے اور اسی سوچ کی بنیاد پر جدوجہد آگے بڑھ رہا ہے وہ بھی انسان ہے اس میں بھی انسانی کمزوری ہے اگر اس کی بھی اصلاح کے بجائے اسکی کردار کشی شروع کریں تو ساتھیو! اگر ہم سامنے کی پہاڑی کو کھودنا شروع کریں تویہ بڑے پہاڑ بھی چند مدت بعد کھودنے سے اپنی سالم صورت میں باقی نہیں رہتا ۔۔۔اور انسان کی ذات بعض حوالوں سے بہت کمزور ہوتی ہے ۔تنقید از حد ضروری ہے تنظیم کے تمام اداروں اور ساتھیوں کے لئے لیکن ممکن مثبت اور تعمیری ہونا چاہیے ۔
پروپیگینڈہ :
پروپیگینڈہ کے لفظی معنیٰ توکسی خاص کام جن کے سیاسی وقومی مقاصد ہوںیا کسی کمپنی کے اپنے مصنوعات کی تشہیر ہو جس کے لئے وہ ٹی وی یا دیگر نشری ذرائع استعمال کرتا ہے یا انسانی ذرائع استعمال استعمال کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے مصنوعات کی خوبیاں جتا کر خریدنے کی ترغیب دلاتا ہے اور سیاسی مقاصد کی حصول و رجحانات کی تعین بھی مقصود ہوتو یہ تشہیر ہی پروپیگنڈہ کہلاتا ہے۔
پروپیگنڈہ کے دو اقسام ہیں ایک مثبت اور دوسری منفی ہوتا ہے مثبت یہ ہے کہ ایک دوا کے بارے میں یا اس کے افادیت کے بارے لوگوں کو آگاہی دی جائے اچھی بات ہے۔۔۔ دوسری جانب دیکھیں کہ بی بی سی ،سی این این ، فاکس نیوز اور دنیا کے دیگربڑے بڑے کارپوریٹڈ ٹی وی چینلز یا بی بی سی ریڈیو ،وائس آف امریکہ ،جرمن ریڈیو ان تمام نے عراق کے جنگ کو اس طرح پیش کیا کہ اس پروپیـگینڈے کو عروج پر پہنچایا، جی صدام کے خلاف یا صدام رجیم کے خلاف کہ ان کے پاس بائیولوجیکل ہتھیار ،کیمیکل ہتھیار اور ایٹمی ہتھیار ہیں بلکہ انتہائی مہلک انسان کش ہتھیار موجود ہیں اپنے ریڈیوزاور ٹی وی چینلوں نے پوری دنیا کے دماغ کو کنڑول کرلیا پروپیگنڈا کے معنیٰ ہی دماغوں کو کنٹرول کرنا ہے ۔سامراجی طاقتوں نے جب دماغوں پر اپنا قبضہ جمالیا تو میڈیا کے ذریعے ہی دنیا قائل ہوگیا کہ واقعی میں صدام حسین ایسا ہی ہے پھر انہوں نے اپنے مقاصد کے لئے صدام پر حملہ کرکے انہیں تختہ دار پر لٹکایا ۔۔۔اب تحقیقات شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ان کے پاس نہ کیمیائی ہتھیار تھے اور نہ ہی بائیولوجیکل اور ماس ڈسٹرکشن ویپن کہ جو انسانیت کو تباہ و برباد کرتے ہیں ،اس وقت اس با ت کی صدر جارج بش اور نہ ٹونی بلیئر نے کوئی جواب دیا یہ پروپیگنڈہ کے منفی حصہ ہے جو آپ کسی کے خلاف چلارہے ہیںدوسری یہ ہے کہ آپ پروپیگنڈا سے کسی کی تعمیر کررہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ۲۰۰۲ میں ہم پریس کانفرنس کے لئے پریس کلب کوئٹہ میںتھے تو ہم سے پوچھا گیا کہ آپ تھوڑے لوگ ہیں، آپ لو گ آزادی کا پیغام دینا چاہتے ہیں پوری میڈیا تو سرکار کی کنٹرول میں ہے آپ کس طرح اپنی پروپیگنڈہ کے آگے اپنے عوام تک پہنچا سکتے ہیں آپ کا ذریعہ کیا ہوگا؟۔۔۔ میں نے ان صحافیوں کو جواب دیا ہمیں آپ کے اخبار اور ٹی وی کی ضرورت نہیں ہے یہ جو نوجوان آپ کو یہا ں کھڑے نظر آتے ہیں یہ ہمارے میڈیا ہیں ،ہمارے میڈیا کے بہتریں ذرائع ہیں یہ ہمارے پروپیگنڈ ہ کو احسن طریقے سے اپنے عوام تک پہنچائیں گے ۔ صرف ہم نہیں بلکہ ہمارے سینیئر ساتھیوں کے پاس بھی اخبار اور ٹی وی کے ذرائع نہ تھے، لیکن آج دس یا بارہ سال بعد دیکھئے کہ آزادی کا پیغام ہر کوہ و دمگ غرضیکہ ہر جگہ پہنچ چکا ہے اور اثر پذیری بھی انتہائی حوصلہ افزاء ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا پروپیگنڈہ مثبت اور مقصد راست اور نیک ہے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اوائل میںکوئی ہمارے پاس آنے کے لئے تیار نہ تھا ۔پہلے ہم اور عام بلوچ ایک دوسرے کے رویے سے ناواقف تھے ۔ایسا نہ ہو کہ اس ناواقفیت کی بناء پر کوئی حادثہ یا واقع رونما ہوجائے ہر ایک اپنے حدود میں مقّید تھی کیونکہ پروپیگنڈہ کے ذرائع محدود اور مشکل تھے آج دس سال بعد کی صورت حال یہ ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم لوگوں کے پاس جائیں اور لوگوں کی کوشش ہے کہ وہ ہمارے پاس آئیں ہماری لئے اپنی پیغام پہنچانا بہت آسان ہوچکاہے ۔ ایک قربت کا ماحول ہے ،دوریاں ختم ہوچکی ہیں پورے بلوچستان کے ہر دمگ و کوچگ میں ہمارے جدوجہد کے مثبت تشہیر اور مثبت پروپیگنڈہ کا اثر ہے ۔ اپنی بندوقوں کی ترجمانی ہمارے سیاسی ساتھیوں، رہبر و لیڈروں اور ہمارے بزرگوں نے اچھی طریقے سے کی ہے آج بلوچستان اور بلوچ قوم پر اس کی مثبت اثر واضح صورت میں دیکھا جاسکتاہے ۔
اب اس مثبت اور تعمیری پروپیگنڈے کے جواب میں ہمارے جدوجہد کے مخالفین منفی پروپیگنڈے کررہے ہیں اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعے رائے عامہ کو ہمارے خلاف کرنے کے لئے واویلا مچا رہے ہیں کہ جی ایجنٹ ہیںکبھی امریکہ و ہندوستا ن کے ایجنٹ قرار دیتے ہیں ، کبھی ایران ، افغانستان اور اسرائیل کے ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے سے لوگوں کے دل و دماغ پر اثر کرنے پر قاصرہیں تو اسے نئی رخ دے دی اور ہمیں مذہب او ر اسلام کے خلاف قرار دیکر ایسے نازک باتو ں سے لوگوں کو بدل کرنے کی کوشش شروع کی کہ جہد کار دین، مذہب کے خلاف ہیں اس لئے یہ کافر ہیں ۔
وہ یہ بھی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ جی جہد کار وحشی ہیں ،درندہ ہیں ان کے پاس انصاف وقانون نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے، جسے بھی دیکھتے ہیں، قتل کرڈ التے ہیں اس سے کچھ لوگ ہم سے بد دل بھی ہوئے کہ ہم انسان کش ہیں لیکن یہاں ایک پروپیگنڈہ دوسرے کو کاوئنٹر کرتا ہے۔ آج ہمارے جو پروپیگنڈہ ہے یہ ہمارے جہد کاروں کی جدوجہد ہے وہ ایک سیاسی فکر کی بنیاد پر چل رہا ہے اور تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ ہمارے فکر کامیاب اور کامران ہوا ہے دشمن اور رد انقلابیوں کے غلط اور منفی پروپیگنڈے کے اثر کو ہمارے مثبت پروپیگنڈے نے بالکل زائل کردیاہے اب ہمیں دیکھنا ہے کہ بحیثیت ایک جہد کار یا بحیثیت کامریڈ کے ہماری پروپیگنڈے کے وصف اور سمت دونوں ایک بالغ انسان کی طرح ہونے چاہئیں ہمیں خوبی اور خامی، مثبت اور منفی تمام پہلوئوں پر خاص گرفت رکھنا چاہیے کیونکہ ہر شے کی ایک حد اور ایک پیمانہ ہوتاہے ۔ ہمیں ہر چیز کے لئے ایک مناسب پیمانے سے باہر نہیں جانا چاہیے ۔ ساتھی تنقید بہر صورت کریں لیکن ایسابھی نہیں کہ کسی کی عزت ِ نفس مجروع ہوجائے اور تنقید اس انداز میں ہرگز نہ ہو کہ کوئی دوبارہ اٹھ نہ سکے۔۔۔ ہمیں اس حوالے احتیاط کی دامن نہیں چھوڑنا چاہیے کہ بعد از تنقید ہم پشیمان ہوں یا اپنے الفاظ دوبارہ لینے پر مجبور ہوں ،آپ جب اپنی دشمن کی تنقید کررہے ہیں تو حقائق پر گہری نظر رکھیں ،اس کی منفی اور غلط کاریوں پر بھی تنقید اس طرح ہو کہ انہیں تاریخ غلط قرار نہ دے لیکن جب دوست کی اصلاح مقصود ہوتوبھی حدود کے اندر یہ ہونا چاہیے۔تنقید سے کسی ساتھی یا کامریڈ کو ایسی ضرب نہ پڑے کہ اس کی شخصیت اور اس کی توانا ذہن ٹوٹ نہ جا ئے ،اس کی ذہنی صلاحیتیوں کی پرورش رُک نہ جائے ۔ یاد رکھیں کہ دشمن کی پروپیگنڈہ ہمیں اتنی نقصان نہیں دے سکتا کیونکہ اس کے بارے میں ہم واقف ہیں لیکن تنقید جب اپنی دوست کررہا ہو تو اوروہ حدود سے ناواقف ہو۔ ناسمجھی یا لاشعوری طور پر انسان کی ذات ، ا س کی شخصیت اور اس کی پوٹینشل انرجی جو کہ اب تک استعمال بھی نہیں ہوئے ہیں ، تو آپ اسے ڈھا رہے ہیں یہ نیک اور صحت مند شئے نہیں ہے ، یہ اس شہد کی مکھیوں کی مثال ثابت ہوا جو سارا سال محنت سے عرق ریزی کرکے شہد بنا تا ہے اور سردیوں کے آتے ہی اسے چٹ کر جاتا ہے ۔پھرشہد ختم اورموم رہ جاتا ہے جو ایک محدود کام کے سوا ناکارہ ہے ۔کہیں ایسا بھی نہ ہو کہ ہم نا سمجھی یا لاشعوری طور پر شخصیت کی تعمیرکے بجائے بگاڑ رہے ہیں ۔ تنظیم ، پارٹی یا سرکل کے ساتھیوں کی اصلاح کرنا ،اُن کی مثبت پروپیگنڈہ کرنا چاہئیے جو کہ ہمارے لئے سود مند اور نفع آورہے۔
اگر متعین حدود کو پارکریں تویہ نیکی نہیں ہوگا بلکہ خرابی اور بدی کی علامت ہوگا ، ہمیں یہ بھی مدِنظر رکھنا ہوگا کہ انصاف کیا ہے ؟کیونکہ ہر فریق اس کی اپنے طور پر تشہیر کرتا ہے ۔کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو قاتل دعوی کرتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ عین انصا ف ہے جبکہ مقتول کے لواحقین کے مطابق انصاف یہی ہے کہ وہ ظالم ہے ۔
ؔ
آج ہم اپنے معاشرے میں ذمہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہمارے جہد کار اپنے قوم کے ذمہ دار فرد، آئیڈیل اور علامت ہیں ،مطلب یہ کہ ہم بلوچ سماج پر اس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں کہ آج کہیں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے، وہاں نومولود کے بجائے سرمچاروں کی تعریف میں گیت گاتے ہیں ۔آج جہاں شادی ہوتی ہے، ایسی خوشیوں میں ہمارے ماں بہن اس خوشی اور خوشی کے مالک یا دولہا کے بجائے بلوچ جہد کاروں کی ستائش میں روایتی اور نو تخلیق گیت گاتی ہیں خواہ وہ جہد کار سائیجی میں ہو یا بولان میں ہو ۔۔۔سماج میں یہ تصور جہد کی برکت سے سرایت کرچکا ہے کہ سرمچار قومی تکمیل اور قومی تعمیر کے لئے اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں ۔آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں ۔بلوچ قوم اور آئندہ نسلوں کو انصاف دلانے والے یہی لوگ ہیں ۔ جو سرمچار کہلاتے ہیں پھر ہمیں یہاں ذمہ داری کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ ہم کہاں تک ذمہ دار ہیں ۔
آج بلوچ بہنیں کشیدہ کاری کرتے ہیں وہ بھی جہدکاروں کے نام پر ہوتی ہے ،کوئی تعزیت کے لئے جاتا ہے، پُرس جائے ارمانی ہے لیکن کوئی آدمی اپنی طبعی موت انتقال کرتا ہے وہاں بھی ہمارے شہداء کی تعریف و ستائش ہوتی ہے اس کی کردار اور بہادری کی مثال دی جاتی ہے اس کی کامل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے ذمہ دار اور آئیڈیل ہیں ۔وہ لوگ جو جہد کاروں کو نہیں دیکھ پاتے ہیں اُ ن کے لئے بھی آپ رہبر ہیں ،وہ بھی ہمیں اپنی رہبر قرار دیتے ہیں ۔ہمیں اپنی نجات دہندہ اور اپنی اولاد کہتے ہیں ۔ہمیں اپنی بھائی اور عزیز کہنے میں فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اب ایسی مثبت صورت حال میں ہماری تنقید کے لئے مناسب پیمانہ ہونا ضروری ہے ۔ہم جہاں بھی جاتے ہیں ،گفتگو کرتے ہیں ، ہمیں اپنی حدود میں رہنا چاہیئے۔حتیٰ کہ آپسی بات چیت یا تنقید میں بھی ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئیے کیونکہ معاشرے کی نگاہیں ہمارے ہر عمل پر مرکوز ہیں ۔اس بات پر دھیاں رہے کہ ہماری کون سی بات فرد یا سماج کے لئے نقصان دہ ہے یا کون سی بات انسان اور انسانیت کی تعمیر کرتی ہے ۔ کون سی بات ہمارے جہد کے لئے مثبت اور کون سی منفی ہے ۔ہمارے ہر عمل اور ہر بات کی محور انسان اورانسانیت ،قوم اور وطن کی تعمیر کے لئے ہو۔
٭٭٭