بلوچ قوم اپنی وجود سے لیکرآج تک ریاستی بر بریت سے نبردزآما

0
292

سنگر ماہنامہ میگزین اداریہ

دن،ماہ،سال و سرکاریں بدلتی ہیں مگر مقبوضہ بلوچستان میں قابض کی اجتماعی نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیاں نت نئے طریقوں سے جاری ہیں۔بلوچ قوم ہر ادوار میں مصائب و مشکلات سے دوچار رہاہے۔پاکستانی قبضے کے بعد بلوچستان کے لوگ ریاستی ظلم و بر بریت کے لا متناہی سلسلے کا شکار ہیں۔ بلوچ قوم اپنی وجود سے آج تک ریاستی ظلم و بر بریت سے نبردزآما رہا ہے۔جہد ِ مسلسل کی اس روایت نے بلوچ قوم کو تاحال اپنی وجود و تشخص بر قرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔فورسز کی آسمان کو چھیرتی ہوئی راکٹ و گولے باری،بلوچ فرزندان کوآئے روز اغواء و لاپتہ کرنے جیسے عمل سے ان کے لئے زمین تنگ کردی گئی۔

نوجوانوں،بزرگوں سمیت بلوچ خواتین و بچوں کی اغوا نما گرفتاری میں ریاست کی جانب سے تیزی سامنے آ رہی ہے،خاص کر خواتین کی جبری گمشدگیاں بلوچ معاشرہ خواتین کے بارے میں بہت حساسیت رکھتی ہے،ایسے واقعات بلوچ حمیت اور صدیوں سے بلوچ معاشرہ میں تقدس کے حامل روایات پر براہ راست حملہ سمجھتے ہیں، اس کے طرح کے واقعات کے نتائج ریاست کے لئے انتہائی گھمبیر ہونگے اور اِن واقعات سے بلوچ مسئلے کے تپش میں اضافہ ہورہا ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں گھمبیرتا کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے،جہاں آزادی پسندوں کے رشتہ داروں کو اب بلا جنسی تفریق کے جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے تاکہ بلوچ سیاسی و مزاحمتی جہد کاروں کو سرنگوں کیا جا سکے،مگر بلوچ تاریخ سے نابلد قابض فوج کو یہ معلوم نہیں کہ بلوچ مزاحت ایسے حربوں سے کمزور نہیں بلکہ اور تقویت پا رہی ہے،دشمن کے خلاف نفرت اب ہر بلوچ گھر کی شان بن چکی ہے اور یہی نفرت اس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ قابض ریاست پر سرمچاروں کے پے درپے حملوں نے اسے ہوس باختہ کر دیا ہے اور وہ خواتین و بچوں کی جنسی حراسگی اور جبری گمشدگیوں میں تیزی لائے ہوا ہے۔دشمن کی جانب سے یہ عمل ایک نئے اور روشن صبح کی دلیل ہیں اس میں کوئی شق نہیں کہ پاکستانی فوج اب بلوچستان میں اپنے حوصلے کھو چکی ہے۔

بلوچ قومی تحریک کے اس اہم مرحلے پر قابض کی فوجی جبر و تشدد،بلوچ فرزندان کی اغواء و مسخ لاشوں کا پھینکنا،انسانیت سوز مظالم اور حیوانی جارحیت کی متوقع نتائج کے برعکس یہ مرحلہ بلوچ قوم کے لئے مشکل و کھٹن ہی سہی لیکن ایک طرف بین الاقوامی پذیرائی کی سبب بنی تو دوسری طرف شعوری بیداری اور منظم سائنٹفک جدو جہد نے بلوچ میں شعور کو اجاگر کیا۔ دشمن ریاست اب چاہے کتنا بھی جبر کرئے بلوچ قوم اپنا فیصلہ سنا چکی ہے کہ آزادی کے علاوہ اب کسی قسم کی ڈیل قبول نہیں۔

وہ الگ بات ہے کہ کسی بھی عالمی قوت نے قبضہ اور قبضے کے خلاف بلوچ کی انسانی اقدار اور آفاقی اصولوں کے مطابق جدو جہد کو تسلیم کر کے قابض کو جنگی صورحال میں جنیوا کنونشن پر عمل درآمد کے لئے آج تک مجبور نہیں کیا،جو یہ واضح کرتا ہے کہ بین الاقوامی قوتیں اب تک بلوچ کی اقتدار اعلیٰ کو پاکستان کے متبادل کے طور پر تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں۔بلوچ قومی جدوجہد ایک کامل حکمت عملی کے تحت اپنی کامیابی کی جانب گامزن ہے جسکی ثبوت شہدا کا سرخ لہو ہے جو سرزمین کی پیاس بجھانے کے لئے ندی بن کر بہہ رہی ہے، یقینا وہ وقت دور نہیں کہ عالمی قوتین مجبور ہو جائیں گی کہ وہ قابض ریاست کو عالمی قوانین کے کٹہرئے میں لے آئیں گے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here