عراق پر چڑھائی کیلئے امریکا کے جھوٹے ثبوت فراہم کیے جانیکا انکشاف

0
218

فرانس کی سابق خاتون وزیر دفاع مائیکل ایلیٹ میری نے پولیٹیکل میموری پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ عراق پر امریکا کی فوج کشی غلط اورجعلی سبوتوں کی بنیاد پر کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پیرس نے اس وقت امریکی قیادت کی طرف سے عراق پر حملے کے لیے پیش کردہ جواز مسترد کر دیے تھے۔ امریکا نے عراق میں گندم کے گوداموں کی تصاویر کو میزائل ڈپو بنا کرپیش کیا تھا اور ہم جانتے تھے کہ یہ گندم کے گودام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2002ء میں ان کے امریکی ہم منصب ڈونلڈ رمز فیلڈ نے یورپی وزرائے دفاع کے ساتھ ملاقات میں امریکی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر پر روشنی ڈالی۔ اس میں انہوں نے ایک عراقی شہری سہولت کو دکھایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ جگہ میزائل داغنے کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ دوسری طرف فرانسیسی وزیر دفاع نے اسی جگہ کی لی گئی تصاویر دکھائیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گندم کے گودام تھے۔

مائیکل ایلیٹ میری نے کہا کہ اس دور کے آغاز میں جس میں میں نے وزارت دفاع کا منصب سنبھالا تھا، ہم پراگ یا وارسا میں ایک میٹنگ میں ملے تھے، مجھے اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ ڈونلڈ رمزفیلڈ کے ساتھ جو میرے امریکی ہم منصب تھے اور کہاں تھے جو اس وقت یورپیوں کو عراق میں ہونے والے آپریشن میں حصہ لینے پر آمادہ کرنا چاہتا تھا، وہ بہت سے ہتھیاروں کے ساتھ آیا تھا۔ سیٹلائٹ کی تصاویر سے اس نے ہمیں دکھایا جہاں میز کے ارد گرد وزراء موجود تھے۔اس نے ان کے سامنے تصاویر پیش کیں۔ میزائل لانچرز کی مبینہ تصاویر دکھائیں اور کہا کہ صدام حسین ان پلیٹ فارمز کو میزائل لانچ کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔

سابق وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ”مجھے اس کی بازگشت ملاقات سے کچھ دن پہلے موصول ہوئی تھی کہ رمز فیلڈ کیا کہنے اور ہمیں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس لیے میں نے اپنے سیٹلائٹس کی بنیاد پر فرانسیسی فوج سے کہا کہ وہ عراق کی زیادہ سے زیادہ تصویریں لیں۔ جب رمز فیلڈ اس کی تصویریں دکھائیں، میں نے فرانسیسی سیٹلائٹ کی لی گئی تصویریں نکالیں، جو یہ ظاہر کرتی تھیں کہ اس کا تعلق گندم کے گودام تھے۔ صرف وہ زاویہ جس سے تصویریں لی گئی تھیں، وہی نہیں تھا۔ جو تصویریں امریکیوں نے دکھائی تھیں۔ لگتا ہے کہ ان کے پاس اور بھی تصاویر تھیں۔ بہ ظاہر دیکھنے میں لگتا تھا کہ وہ میزائل لانچ پیڈ ہوں اور جو تصویریں ہمارے پاس ہیں ایک اور زاویے سے لی گئی ہیں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کا تعلق کسی شہری تنصیب سے ہے۔”

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہاں ہم خودمختاری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس امریکی تصویروں کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو شاید ہم بھی یہی تشریح اختیار کر لیتے، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ یہ فرانس کا موقف تھا کیونکہ ہم ہرکام میں امریکا کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔

فرانس کی سابق وزیر دفاع نے اس بات کی تصدیق کی کہ 2003 میں عراق کے خلاف جنگ شروع کرنے کا جواز پیش کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے عوامی طور پر پیش کی گئی دستاویزات بڑی حد تک غلط حقائق پر مبنی تھیں۔

مائیکل ایلیٹ میری نے کہا کہ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ امریکا کی طرف سے پیش کیے گئے تمام ثبوت غلط ہیں لیکن جو کچھ بھی امریکا نے عوامی سطح پر پیش کیا وہ بڑی حد تک غلط حقائق پر مبنی تھا اور میرا ماننا ہے کہ کولن پاول نے جب میں ان سے ملا تو انہوں نے بھی [عراق پر چڑھائی کے جعلی ثبوتوں ] کا اعتراف کیا تھا۔

میں نے بھی فرانس کا موقف سمجھانے کے لیے امریکا کا سفر کیا تھا اور یہ ہمیشہ آسان نہیں تھا لیکن اس کے باوجود میں وہاں گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ کولن پاول مکمل طور پر متفق نہیں تھے۔ انہوں نے صدر بش کے موقف کو نہیں اپنایا جب میں ان سے ملا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس وقت کونڈولیزا رائس سے بھی ملی تھی اور ان سے کہا تھا: دیکھو جو تم کر رہی ہو وہ غلط ہے۔ عراق ایک تکثیری ملک ہے، یہ درست ہے کہ اس کا مقام اہم ہے، لیکن اس میں مختلف مقامات ہیں۔ ہم ایک غیر مستحکم خطہ پیدا کرنے کا خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں۔ میں بعد میں کونڈولیزا رائس سے ملی، اس نے مجھ سے کہا کہ آپ غلط نہیں تھیں۔”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here