روس امریکی تربیت یافتہ افغان فوجیوں کو بھرتی کر رہا ہے،رپورٹ

0
290

تین سابق افغان جرنیلوں نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ افغان اسپیشل فورسز کے وہ فوجی جو امریکی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑے تھے اور پھر گزشتہ سال افراتفری میں امریکی انخلاء کے بعد ایران فرار ہو گئے تھے، اب روسی فوج انہیں یوکرین میں لڑنے کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روسی ہزاروں سابق ایلیٹ افغان کمانڈوز کو ایک ”غیر ملکی لشکر” کے طور پر بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ ان سابق فوجیوں کو ڈیڑھ ہزارڈالرماہانہ کے علاوہ اپنے اوراپنے اہل خانہ کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کی پیش کش کی گئی ہے، تاکہ انہیں واپس افغانستان نہ جانا پڑے، جہاں طالبان انہیں ہلاک کر سکتے ہیں۔

ایک سابق جنرل عبدالرؤف ارغندیوال نے بتایا کہ وہ لڑنا نہیں چاہتے، لیکن ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ

”وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے کوئی حل بتائیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اگر ہم واپس افغانستان گئے تو طالبان ہمیں مار دیں گے۔“

ارغندیوال نے کہا کہ بھرتی کی قیادت روسی کرائے کی فورس ویگنر گروپ کر رہی ہے۔ ایک اور جنرل، ہیبت اللہ علی زئی نے، جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے افغان فوج کے آخری سربراہ تھے، کہا کہ اس کوشش میں افغان اسپیشل فورسز کے ایک سابق کمانڈر کی مدد بھی شامل ہے جو روس میں مقیم تھے اوران کی زبان بولتے ہیں۔

روسی بھرتی امریکی فوجیوں کی جانب سے مہینوں پہلے انتباہ کے بعد ہوئی ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ افغان سپیشل فورس کے وہ لوگ دشمن روس کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں جنہیں طالبان کے ہاتھوں مارے جانے کا خوف ہے۔

اگست میں ری پبلکن کی ایک کانگریشنل رپورٹ میں خاص طور پراس خطرے سے خبردار کیا گیا تھا۔

اے پی افغان بھرتیوں کے بارے میں اس وقت سے تحقیقات کر رہا ہے جب اس کی تفصیلات گزشتہ ہفتے فارن پالیسی میگزین نے نامعلوم افغان فوجی اورسکیورٹی ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی۔ یہ بھرتی اس وقت شروع ہوئی جب روسی افواج یوکرین کی فوجی پیش قدمی کی وجہ سے پسپائی اختیار کر رہی تھیں۔

روس کی وزارت دفاع نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ یوگینی پریگوزن نے حال ہی میں ویگنر گروپ کے بانی ہونے کا اعتراف کیا ہے، ان کے ترجمان نے سابق افغان فوجیوں کو بھرتی کرنے کی جاری کوششوں کو ”احمقانہ ” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

امریکی محکمہ دفاع نے بھی تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، لیکن ایک سینئر اہلکار نے اشارتاً کہا کہ بھرتی حیران کن نہیں ہے کیونکہ ویگنر کئی دوسرے ممالک میں فوجیوں کو بھرتی کرنے کوشش کر رہا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ایران فرار ہونے والے افغان اسپیشل فورسز کے کتنے ارکان کو روسیوں نے پیش کش کی ہے، لیکن ایک نے اے پی کو بتایا کہ وہ واٹس ایپ چیٹ سروس کے ذریعے تقریباً 400 دیگر کمانڈوز کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جو اس پیشکش پرغور کر رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 20 سے 30 ہزار افغان اسپیشل فورسز نے دودہائیوں پرمحیط جنگ کے دوران امریکیوں کے ساتھ لڑائی میں حصّہ لیا تھا اورجب امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہوا تو صرف چند سو سینئر افسران کو ہوائی جہاز سے باہر نکالا گیا۔ چونکہ بہت سے افغان کمانڈوز براہ راست امریکی فوج کے لیے کام نہیں کرتے تھے، اس لیے وہ خصوصی امریکی ویزوں کے اہل نہیں تھے۔

افغان فوج کے سابق سربراہ علی زئی نے کہا کہ ”یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے واقعی آخری لمحات تک جنگ لڑی۔ اور انہوں نے کبھی طالبان سے بات نہیں کی۔انہیں پیچھے چھوڑنا سب سے بڑی غلطی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here