لاپتہ کبیر بلوچ کی والدہ نے کہا ہے میرے بیٹے کبیر بلوچ اور اُن کے ساتھی مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کی جبری گمشدگی کو 14 سال کا طویل و درد ناک عرصہ مکمل ہورہا ہے لیکن وہ تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔
انہوں نے اپنے بیٹے کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی حکومت لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے میں سنجیدہ نہیں رہی ہے، ہر حکومت اس اہم انسانی مسئلے کو طول دینے کے لئے صرف بے اختیار کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دے کر گلو خلاصی کی کوشش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل عدالتی انکوائری کمیٹی بنائی گئی، جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن ان کی کارکردگی صفر رہی اور وہ انتہائی متنازعہ بھی ہوئی سرکاری خزانے سے انہیں کروڑوں روپے اس حوالے سے دئیے گئے لیکن انہوں نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بجائے ان کے لواحقین کو ہراساں کرنے، ڈرانے و دھمکانے کی کوششیں کرتے رہے تاکہ لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی بنانے سے پہلے سابقہ کمیٹیوں کی کارکردگی پبلک کرتے اور اُن کی سفارشات اور رپورٹ سامنے لاتے کہ انہوں نے ایک دہائی میں کیا کارنامہ سر انجام دی ہے اگر وہ کوئی خاص کارگردگی نہیں دکھا سکے تھے تو ان کے خلاف کارروائی کی جاتی اور انہیں دئیے گئے۔ تمام مراعات واپس لئے جاتے لیکن اس کے برعکس موجودہ حکومت نے ایک اور کمیٹی تشکیل دے کر پھر زیرو سے کام کا آغاز کیا ہے۔
وزیراعظم سے لیکر وفاقی وزراء تک سب لاپتہ افراد کے مسئلے میں بے بسی ظاہر کی ہے پھر ذیلی کمیٹی تشکیل دینا چہ معنی دارد، کیا یہ کمیٹی بھی محض وقت گزاری کے لئے بنائی گئی ہے؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کمیٹیاں تشکیل دے کر اس اہم انسانی مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے عملی اقدامات اٹھائیں، غیر متعلقہ لوگوں کو دعوت دینے اور غیر ضروری میٹنگیں بلانے، ٹی اے، ڈی اے سمیت دیگر غیر ضروری اخراجات اٹھانے کے بجائے اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لئے ایک بار اسٹبلشمنٹ اور سیکورٹی ایجنسیز سے معنی دار بات چیت کریں اور جبری گمشدگیوں کی تکلیف دہ غیر انسانی سلوک سے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے چھٹکارا دلائیں۔