عید کے دن کوئٹہ و گوادر میں بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کے احتجاجی مظاہرے

0
213

عید کے دن بلوچ لاپتہ افراد لواحقین نے کراچی سمیت کوئٹہ اور گوادر میں احتجاجی مظاہرے کئے۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں عید کے پہلے روز بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔

مظاہرے میں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت سماجی اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں جاری مظالم پہ خاموش ہیں، لیکن باجواہ یاد رکھے ان تمام مظالم کا ایک دن حساب لیا جائے گا، ظلم کے دن زیادہ نہیں ہوتے ہیں –

انہوں نے کہا کہ پنجاب سے ایک یوٹیوبر صحافی کی گرفتاری پہ آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا ہے، جبکہ بلوچستان میں ہزاروں افراد سالوں سے جبری لاپتہ ہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی سے جبری لاپتہ سہیل بلوچ کے بھائی نے کہا کہ اسکے بھائی کی عمر لکھنے پڑھنے کی ہے لیکن آج وہ زندان میں بند ہیں، اسکی زندگی کے بارے ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں، خدارا اسے بازیاب کر کے زندگی جینے کا حق دیا جائے۔

لاپتہ عبدالرشید بلوچ اور آصف بلوچ کی ہمشیرہ سائرہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان عید کے خوشیوں میں جہاں لوگ اپنوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ہم اپنے ماؤں کو دیکھ نہیں سکتے اپنے بھائی کے بچوں کو تکلیف اور دکھ میں دیکھ کر کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے، کوئی ہے جو ان ماؤں بچوں کو جواب دے سکے؟ میری ماں کہتی ہے کہ اسکے دل میں درد اٹھتا ہے، آپ کیسے حساب دو گے اس درد کا؟ ان بچوں کو کیا جواب دے سکو گے جو باپ کے پیار سے محروم ہیں، اور بے بس نظر آتے ہیں، ماہ گل جیسی بچی نے اس ریاست کا کیا بگاڑا ہے جو اس کے باپ کو اٹھایا گیا تب وہ چار ماہ کی بچی تھی، پوچھتی ہے کہ آنٹی میرے ابو کون ہیں؟ کہاں ہیں؟ کیوں ہمارے پاس نہیں ہوتے ہیں؟

احتجاج سے بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریاست اپنے بنائے ہوئے قوانین کو خود فالو نہیں کرتی تو ہم انکے اداروں کی غنڈہ گردی پہ کیوں خاموش رہیں، ہم ان افراد کو بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ یہ بات جان لیں کہ انکو ریاست استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینکے گا۔

ہمارے بندے ریاستی اداروں نے اٹھائے ہیں جنکے تمام ثبوت موجود ہیں، ریاستی فورسز ان کو گولی مار کر قتل کر سکتے ہیں، ہاں البتہ ہم بدلے میں گولی نہیں مار سکتے پر امن جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے۔

احتجاجی مظاہرے سے ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا کہ ہمیں تمام جبری لاپتہ افراد کیلئے متحد ہوکر مشترکہ آواز اٹھانا چاہیئے، میں تمام تنظیموں سے درخواست کرتا ہوں کہ آجائیں ہم انہیں ایک بہترین حکمت عملی دیں گے جس سے انکی بازیابی جلد ہی یقینی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں صرف جاوید اقبال نہیں بلکہ کمیشن کے افراد سمیت تمام متعلقہ اداروں کے افراد کا رویہ لواحقین سے ایسا ہی رہا ہے۔

احتجاجی مظاہرین آغا زبیر شاہ اور دوسرے لوگوں نے بھی خطاب کیا۔

اسی طرح عیدالاضحٰی کے پہلے روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف شہریوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کرتے ہوئے پاکستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

شہریوں کی بڑی تعداد جن میں خواتین، بچے اور لاپتہ افراد کی لواحقین شامل تھے۔ ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں، پلے کارڈز اٹھائے میرین ڈرائیو نزد الجوہر اسکول سے سید ہاشمی یاتگار چوک تک پیدل ریلی نکالی اور شہر کے مختلف سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے بعدازاں ایک احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کیا۔

احتجاجی جلسہ سے حق دو تحریک کے سربراہ ہدایت الرحمان بلوچ، حسین واڈیلہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عید کے موقع پر خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن ہماری مائیں بہنیں سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی مائیں پندرہ سالوں سے اپنے لاپتہ بیٹے کی راہ تکتے اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں لیکن ریاست کے دل میں کوئی رحم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے عید اور خوشیاں کوئی معنی نہیں رکھتے بلوچستان کو غمزدہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ مائیں بہنیں سڑکوں اور پریس کلبوں کے سامنے سراپا احتجاج اور کبھی تشدد کا سامنے کرتے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ ریاست مجرم ہے جو لوگوں کو سالوں سے لاپتہ کرتا ہے اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو انکو عدالتوں میں پیش کیا جائے اس طرح لاپتہ کرکے غائب کرنا جرم ہے اور یہ جرم ریاست کی طرف سے ہورہا ہے۔

مقررین نے کہا کہ اللہ اور اسکی رسول کا واسطہ اور ان ماوں کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here