بی این ایم ساؤتھ کوریا چیپٹر کی طرف سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ خواتین اور طلباء کی اغواء نما گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں پاکستان کی طرف سے جاری سفاکیت اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق نعرے درج تھے۔
احتجاج کے دوران پاکستانی جرائم کے بارے میں آگاہی کے لیے پمفلٹ بھی تقسیم کیے گئے اور نعرے بھی لگائے گئے۔
مظاہرین نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں انسانیت کے خلاف پاکستان کے جرائم پر اس کا محاسبہ کیا جائے۔
بختاور بلوچ نے مظاہرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے فورسز بلوچ خواتین کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کر رہے ہیں۔ پاکستانی انٹلی جنس ایجنسیاں، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکار تحریک آزادی بلوچستان کو روکنے کے لیے خواتین اور بچوں پر طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا 16 مئی کی آدھی رات کو ایک نورجان بنت واحد بخش زوجی فضل سکنہ ھوشاپ ضلع کیچ بلوچستان کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جبری لاپتہ کردیا۔
19 مئی کی صبح کو پاکستانی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارا اور ایک حبیبہ پیرجان نامی بلوچ شاعر اور فنکار کو جبری لاپتہ کردیا، یہ کارروائیاں پاکستان کی طرف سے بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہیں۔بلوچستان میں ریاستی اداروں کا نامناسب ہے۔اس پر ہمیشہ سوال اٹھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان بلوچستان میں صورتحال کو بدتر بنا رہا ہے۔بلوچستان میں خواتین، نوجوان، بچے اور بزرگ کوئی بھی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔اب تک 50 ہزار سے زائد بلوچ عوام طلباء، کسان، دانشور پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اغواء نما گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ ہیں لیکن اب پاکستانی فوج بلوچ خواتین کو نشانہ بنا رہی ہیں جس پر بلوچ قوم کے شدید تحفظات ہیں۔
انھوں نے کہا ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں بلوچ قوم پر پاکستانی مظالم کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔ بطور انسان انسانیت کو تحفظ کیونکہ ہم بلوچ بھی انسان ہیں اور ہمیں استحقاق حاصل ہے کہ ہمارے ساتھ بھی دوسرے انسانوں جیسا سلوک کیا جائے۔