بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے 4652 دن مکمل ہوگئے۔
آج کیمپ میں مشکے سے سیاسی اور سماجی کارکنان حبیب اللہ، رسول بخش اور دیگر نے آکر اظہارِ یکجہتی کی، جبکہ کیمپ میں وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین بیٹھے رہے۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ کسی نہ کسی کو جبری لاپتہ نا کیا جائے، بلوچستان سمیت کراچی اور دوسرے شہروں سے بلوچ نوجوانوں کو چن چن کر جبری طور پر اٹھایا جا رہا ہے، جب لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانے نکلتے ہیں تو ان پہ ریاستی فورسز ظلم ڈھاتے ہیں، ان کی بے عزتی کی جاتی ہے ان پہ تشدد کیا جاتا ہے اور ان کو غیر قانونی حراست میں لیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے کل کراچی میں دیکھا تھا کہ کس طرح بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین پہ کھلے عام سندھ پولیس نے جبر کا مظاہرہ کیا ان کو غیر قانونی حراست میں لیا ان کوہراساں کیا گیا ان کو چار سے پانچ گھنٹے بلا وجہ پولیس حراست میں رکھ کر انکی پروفائلنگ کی گئی اور ان سے غیر ضروری سوالات پوچھے گئے۔
انہوں نے کہا کہ گچک سے دو خواتین شاہ بی بی، شہزادی اور انکے نوزائیدہ بچے کو پچھلے ایک ماہ سے گچک سیاہ دمب کے فوجی کیمپ میں رکھا ہوا ہے۔ھوشاپ سے سی ڈی ٹی کے اہلکاروں نے بیگناہ بلوچ خاتون نورجان کو رات کے اندھیرے میں اٹھا کر لاپتہ کر دیا پھر اس پہ ناجائز اور جھوٹے مقدمات لگائے گئے، اس ملک میں بلوچ کیلئے قانون اور عدالتی نظام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
دنیا کو چاہیے کہ اس طرح کے غیر انسانی عمل کا سختی سے نوٹس لیں، جدید دنیا کے صحافتی اداروں کو مسنگ پرسنز کا کھلے عام لگا ہوا کیمپ نظر نہیں آتا ہے۔