طلباء تحریک اور ہماری ذمہ داریاں | کمال بلوچ

0
398

بلوچستان میں طلباء کے جو مسائل اور مشکلات ہیں وہ باقی دنیا کے طلباء سے بہت مختلف ہیں اگر آپ دیکھیں تو دوسری جگہوں پر طلباء زیادہ تر داخلے اور رہا ئش یعنی ہاسٹل کے سہولیات کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔ اس بات کو ذہین نشین کریں کہ اس طرح کے احتجاج صرف ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں طلباء اس طرح کی بنیادی سہولیات کے لیے بھی احتجاج نہیں کرتے۔وہاں طلباء ان معاملات پر احتجاج کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے وہاں معیاری تعلیم کے لوازمات پورے ہیں اور ساتھ ہی ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی ہے کہ طلباء مزید علم کی جستجو اور تلاش میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔

ایسی تحاریک جو بلوچستان میں جنم لیتی رہی ہیں ان کی نوعیت باقی دنیا سے اس لیے مختلف ہے کہ اگر کوئی بلوچ طالب علم اپنے گاؤں سے نکل کر کسی بڑے شہر کے تعلیمی ادارے میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرتا ہے تو یقین جانیں اس کا زیادہ تر وقت کلا س روم میں نہیں بلکہ باہر احتجاج میں گزر جاتی ہے ان کے ساتھ ایسا رویہ روا رکھا جاتا ہے کہ وہ بحالت مجبوری اپنے حقوق کے تحفظ اور حقوق کے مطالبے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں، کیونکہ یہاں طلباء ایک محکوم قوم کے فرزند ہیں۔

بلوچستان کے طلباء اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اورجانتے ہیں کہ ان کے ساتھ تعلیمی اداروں میں اس طرح کیوں ہو تا ہے۔ خوف و تشدد روز کا معمول بن چکے ہیں جس کے اب طلباء عادی ہیں۔اس کا اندازہ ہمیں اچھی طرح ہے کہ بلوچ طلباء اپنا وقت کیسے ماحول میں گزار رہے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی وجوہات کیاہیں؟ یہ ایسا سوال ہے کہ اس کاجواب ہر بلوچ اور پشتون طلبا ءکو ڈھوڈنے کی ضرورت ہے۔یہ کوئی ریاضی کی الجبرا کا سوال نہیں جس کا سمجھنا مشکل ہو ، سوال یہ کہ بلوچ اور پشتون طلباء اس طرح کے مشکلا ت کا شکار ہر وقت کیوں ہیں ۔

بلوچ طلباء کو تحریک کی تاریخ پر نظر دوڑانا ہوگا کہ ان پر کب اور کیوں یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔پہلے یہ سمجھیں کہ ان کے ساتھ ایسے کیوں ہوتا ہے ،میرے نکتہ نگاہ میں جب جب بلوچ طلبا اپنی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں جستجو کرتے ہیں اورخود کو پہچاننے کی کوششں کرتے ہیں تب علم و عمل کی جدوجہد سے آشنا رہتے ہیں اور دوسروں کو اس طرف راغب کرتے ہیں۔اس کے ردعمل میں ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ مجبور ہو کر اپنی تعلیم اور تاریخ سے دور ہوجائیں اور خود سے نا آشنا رہیں ان پر دباؤ ڈالا جاتاہے تاکہ وہ اپنی منتخب کردہ راہ سے دور ہو جائیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مارچ 2005 کوایک بلو چ ڈاکٹر جو اپنے ادارے میں گولڈ میڈلسٹ رہے ہیں جس کا نام ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہے جنھوں نے بلوچ نوجوانوں کو اپنی زمین ،ثقافت اور تہذیب کے بارے میں آشنا کرنے کی کوشش کی تو انھیں اپنے باقی دوستوں کے ہمراہ کراچی سے ڈاکٹر نسیم بلوچ کے گھر میں رات کے اندھیرے سے ریاستی ادارے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے گھر سے ان کو گرفتار کرکے جبری لاپتہ کیا۔ جب وہ جبری لاپتہ کیے گئے تو ان کے منظر عام پر لانے کے لیے بلوچ طلباء نے تحریک چلائی جو بلوچستان گیر رہی حتی کہ بی ایس اومتحد ہ کے وائس چیئر مین سھراب بلوچ ، کامریڈ غفار ساسولی، عبداللہ اچکزئی اور عطااللہ کرد تادم مرگ بھوک ہڑتال میں بیٹھ گئے۔

بلوچ طلباء نے طالب علموں کی بازیابی کے لیے اپنے احتجاج کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جس سے ریاستی ادارے طلباء رہنماوں کو منظر عام پر لانے پر مجبور ہوئے بعد میں کچھ دوست رہا ہو ئے اور کچھ دوستوں کو من گھڑت الزامات کے تحت ڈاکٹراللہ نذر سمیت باقی دو دوستوں کو جیل میں ڈال دیا۔ان میں ڈاکٹر صاحب کے بھائی شہید علی نواز گوہر بھی شامل تھے۔انھیں اذیت گاہوں میں اذیتیں دینے کا بعد جیل میں منتقل کیا گیا ان پر کیے گئے تشدد کا اندازہ ان کی تصاویر لگا جاسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم اور طلباء کی تحریک میں نرمی نہیں آئی بلکہ اس جدوجہد کی بدولت بلوچستان کے تمام طلباء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ، یہ کامیابی اسی تحریک سے ہوئی۔

اس بات کو ذہن نشین کریں کہ ریاستی دہشت گردی اس کے بعد ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اور تیزی آئی ، لیکن ہماری حکمت عملی کہیں کمزور نظر آئی۔ بلوچ طلباء کی گرفتاری اور جبری لاپتہ ہو نے کے سلسلے میں مزید تیزی آئی۔بلوچ طلبا جبری لاپتہ ہوئے ، تشدد سے شہید ہو ئے مگر ردعمل اس حد تک سخت نہیں تھا کہ جس سے ریاستی ادارے مجبور ہوکر اس عمل کو روکیں ،اس طرح کی تحریک نہیں چلی ہے چاہےذاکر مجید اور زاہد بلوچ کی گرفتاری کے بعد ان کی بازیابی کی جدوجہد تھی اُس کا پیمانہ بھی وہ نہیں تھا جو ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اور ان کے دوستوں کی بازیابی کے لیے تھا۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں ایک عوامی ردعمل کی کمی ہے جس کا ہو نا بہت لازمی ہے اس کمی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچ طلباء سمیت جبری گمشدگی کے شکار لوگوں کی بازیابی ممکن ہو سکے ۔اس وقت ایک دفعہ پھر طلبا میں تحریک نظر آرہی ہے ان کے حوصلے بھی مضبوط اور بلند نظر آرہے ہیں۔خضدار انجینئر نگ یو نیو رسٹی اور بلوچستان یو نیو رسٹی سے جو بلوچ طلباء آئی ایس آئی کے اہکاروں کے ہاتھوں گرفتاری ہوئے ہیں اس کے بعد طلباء کا احتجاجی ردعمل نظر آ رہا ہے۔اس نوعیت کے احتجاج طلبا تک محدود ہیںْ اس احتجاج میں قومی اور عوامی ردعمل نظر نہیں آرہا اس لیے ریاستی ادارے طلبا ء کو منظر عام پر لیت و لعل سے کا م لے رے ہیں جو احتجاج ہورہا ہے اس سے ریاست پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا اس لیے اس میں شدت لانی ہو گی۔

پاکستانی فوج نے بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے کوفوجی کیمپ میں تبدیل کیا ہے اگر یقین نہیں آتا تو آپ بلوچستان یو رنیوسٹی جاکر جائزہ لیں آپ کو مشکے ، ھوشاپ آواران اور تمپ سمیت بلوچستان کےدیگر علاقوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں جی ایچ کیو جیسی سختی نظر آتی ہے اور ہر طرح کے بندق بردار پہرہ دار نظر آتے ہیں ۔

تعلیمی اداروں میں تشدد گا ہ (ٹارچر سیل ) بنائے گئے ہیں اس حوالے سےکافی ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں بہت سے لوگ بازیاب ہوکر یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ ان کو انہی تعلیمی اداروں میں رکھا گیا تھا اوران پر تشدد کیا جاتا رہا ہے اور ان سے تفشیش کی جاتی رہی ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ طلباء اور تعلیمی ادارے کیسے ہیں اس کے نفسیاتی اثرات کیسے ہیں۔طلباء اس ماحول میں آزادانہ تعلیمی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔

ہم طلبا تحریک کے متعلق ذکر کررہے تھے اس طرح ایک تحریک جو بھاشا آندولین ( language Movement ) کے نام سے بنگلہ دیشں میں ۱۹۵۲ کو شروع ہو ئی تھی جسے بنگالی طلباء نے یونیورسٹی سے شروع کیا تھا جنھوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اپنی ثقافت ، تہذیب ، تعلیم اور زبان کو محفوظ کیا۔یہ تحریک کس طرح اور کیسے شروع ہوئی اس سے ہر ایک بخوبی جانکاری رکھتا ہے۔یہ تحریک مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والے بنگالیوں کے فرزندوں نے شروع کی تھی جو تاریخ میں ہمیں تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نے پاکستان کو بنا یا اسی مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والے بنگالیوں کا کیا حال ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔بنگالوں نے اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کے لیے طلبا کی تحریک شروع کی۔جس نے آگے جاکر قومی بقا ءکی تحریک کی شکل اختیار کی جس کی بدولت اس نے خود کو پاکستان سے الگ کرکے۔ اپنی شاخت کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے اور آج آزاد فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔اس سے اندازہ کر نا ہو گا اس ملک میں باقی قوموں کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے اس کا انداز کرنا مشکل نہیں ہے ۔

اس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء کی بازیابی کے لیے جو تحریک شروع ہوئی ہے اسےقوم کو کامیابی کرنا چاہیے اورہر باشعور زن ومرد کو خود کو اس راہ کے لیے وقف کرنا چاہیے تاکہ اپنے مستقبل کو محفوظ کرسکیں ،یہ ردعمل جس کی توقع ہے وہ یہاں نظر نہین آرہا۔ اکثر محفلوں میں ذکر ہوتا ہے کہ خطے میں بلوچوں میں سیاسی شعور اور آگاہی دیگر اقوام سے زیادہ ہے تو اس کا اظہار یہاں کیوں نظر نہیں آتا؟

ہماری قوم کے مستقبل کے ساتھ پاکستانی فوج جوکچھ کر رہی ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے میرے الفاظ میں کچھ تنقید نظر آرہی ہے کیونکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان اس طرح خاموش کبھی نہیں رہا ہے جس طرح آج نظر آرہا ہے۔

بلوچستان جہاں ظفاریوں کے حق میں حمید بلوچ نے قربانی دے کر کہا تھا کہ بلوچ ایک محکوم قوم ہے وہ کسی اور کے مفاد کی خاطر کسی اور کی فوج میں کیوں بھرتی ہو کر ان کے خلاف کیوں لڑیں اور استعمال ہو ں۔اس سے بہتر ہے وہ وہا ں پیسوں کے لیے نہیں جائیں، اس پر ردعمل دے کر پھانسی کے پھندے کو چھوم کر امر ہو گئے۔

عرض یہی ہے صرف طلبا کے لیے نہیں بلکہ تما م بلوچوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہر بلوچ کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا تاکہ بلوچ قوم کے بہادر فرزندوں، اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے کردار اد ا کریں ، ورنہ تاریخ انتہا ئی بے رحم ہو تی ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here