تحریک لبیک کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ

0
183

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن نے تحریک لبیک کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے لیے صوبائی کابینہ کو ایک سمری ارسال کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس جماعت کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے میں کوئی اعتراض نہیں۔

سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس سمری کی منظوری صوبائی کابینہ سے سرکولیشن سمری کے ذریعے لی جائے گی۔

اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبائی کابینہ کے ارکان تحریک لبیک کو کالعدم تنظیوں کی فہرست سے نکالنے کے بارے میں اپنی رائے یا منظوری تین روز کے اندر اندر دیں۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اگر صوبائی کابینہ کے ارکان نے مقررہ مدت میں اپنی رائے نہ دی تو اس بارے میں یہ تصور کیا جائے گا کہ انھوں نے اس سمری میں دی گئی سفارشات کو منظور کر لیا ہے۔

دوسری جانب جمعرات کے روز تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست عدالت نے واپس لیے جانے کی بنیاد پر نمٹا دی ہے۔

سعد رضوی کو رواں برس اپریل میں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ تاحال نظربند ہیں۔

جمعرات کو لاہور ہائیکورٹ میں سعد رضوی کے چچا کے وکیل برہان معظم نے بتایا کہ ان کی ’درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے۔‘

یاد رہے کہ گذشتہ روز عدالت نے اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں دلائل طلب کیے تھے تاہم سعد رضوی کے وکیل میاں پرویز نے یہ کہہ کر عدالت سے مہلت مانگی تھی کہ اس حوالے سے حکومت کے ساتھ معاملات طے ہو رہے ہیں۔

گذشتہ روز عدالت کا کہنا تھا کہ‘سوال یہ نہیں کہ معاملات طے ہوئے ہیں کہ نہیں،آپ یہ بتائیں درخواست قابل سماعت کیسے ہے۔۔۔ آپ نے جس نوٹیفیکیشن کو چیلنج کیا اس کی معیاد مکمل ہو چکی ہے پھر یہ کیس کیسے قابل سماعت ہے۔‘

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے سامنے کالعدم جماعت تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کے چچا کی طرف سے درخواست واپس لینے کے باوجود تحریک لبیک کے سربراہ رہا نہیں ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ اس درخواست کے واپس لینے کے بعد دو ہفتے قبل سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ حتمی تصور ہوگا جس میں عدالت نے علامہ سعد رضوی کی رہائی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کو دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کو بھیج دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں عدالت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن ڈبل ون ای اور ٹرپل ون ای کو قانون کے مطابق دیکھنے کا حکم دیا ہے۔

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کے کسی بھی بینچ کے سامنے جب یہ معاملہ آئے گا تو عدالت عالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی سماعت کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں احمد اویس کا کہنا تھا کہ اگر ڈپٹی کمشنر چاہے بھی تو وہ علامہ سعد رضوی کی نظربندی کے احکامات واپس نہیں لے سکتے۔

انھوں نے کہا کہ اتنا بڑا فیصلہ ڈپٹی کمشنر اکیلے نہیں کرسکتا اور اس حوالے سے انھیں سپریم کورٹ کی ڈائریکشن کو دیکھنا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ لاہور میں ہونے والے مذاکرات کے دوران صوبائی حکومت نے ان پر واضح کیا تھا کہ عدالتوں میں اس جماعت کی لیڈرشپ کے خلاف درج مقدمات کے حوالے سے حکومت اپنا وہی موقف اپنائے گی جو قانون کے مطابق ہوگا۔

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ علامہ سعد رضوی کی نظربندی سے متعلق فیڈرل ریویو بورڈ کا اجلاس 6 نومبر کو لاہور میں ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر فیڈرل ریویو بورڈ کے سربراہ ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا ایک ایک جج اس بورڈ کے رکن ہیں۔

فیڈرل ریویو بورڈ کا گزشتہ اجلاس لاہور میں ٹی ایل پی کے ہنگاموں کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا۔

تحریکِ لبیک کے بڑے مطالبات میں سے ایک ان کے امیر سعد رضوی کی رہائی رہا ہے جو رواں برس اپریل سے حراست میں ہیں۔

تحریک لبیک کے سربراہ کو خدشہ نقص امن کے تحت نظر بند نہیں کیا گیا بلکہ ان کی نظربندی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے سعد رضوی کی نظربندی کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم پنجاب حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے نظربندی کے خاتمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ معاملہ دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کو بھیج دیا تھا اور ساتھ یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ اس معاملے کو دیکھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here