شہر سوختہ ”توتک“ تحریر: ڈاکٹرجلال بلوچ

0
682

حالیہ بلوچ قومی تحریک آزادی لگ بھگ بیس سال کا سفر طے کرچکا ہے۔ اس دوران قابض ریاست نے بلوچ قومی تحریک آزادی کو کچلنے کرنے کے لیے بربریت کا ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کی مثال تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ جس میں گھروں کا مسمار کرنا، لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے جبری طور پر بے دخل کرنا، اندرورن بلوچستان آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ان پہ آتش و آہن برسانا، عمر اور جنس میں تمیز کیے بغیر لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا، جبری طور پر گمشدہ افراد کی دس ہزار سے زائد ویرانوں سے ملنے والی لاشیں ہوں یا اجتماعی قبریں، الغرض انسانیت کو پیروں تلے روندنے کے جو طریقہ کار ہیں قابض کی جانب سے ان سب کا استعمال کیا گیا۔ ان مظالم کا شکار بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع خضدار کا علاقہ ”توتک“ بھی بنا بلکہ دیگر مظالم کے ساتھ وہاں سے دریافت ہونے والی ا جتماعی قبروں نے پوری دنیا کی توجہ اس دور افتادہ چھوٹے سے گاؤں کی جانب مبذول کیا۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی رپورٹس موجود ہیں جن میں اس خونی کھیل کا کھلاڑی ریاست کو ٹہرایاگیا ہے۔ قابض کو شاید یہ خوف لاحق تھا کہ جس طرح بھٹو حکومت کے دوران بلوچستان کی قومی آزادی کے لیے توتک کے فرزندوں نے خود کو مسلح کیا جن میں قمر الدین اور اس کا بھائی خمیسا کا نا م قابل ذکر ہیں، موجودہ نسل بھی انہی کی راہوں پہ چلتا ہوا اسی انداز سے تاریخ کو دہرائے گا۔

بھٹو کے دورحکومت میں جب بلوچستان کے طول و عرض میں آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی توتوتک سے قمرالدین اور اس کا بھائی خمیسا نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا جس کی وجہ سے ان کا آبائی علاقہ(لوخ) جس میں وہ عوام کو منظم کررہے تھے خونی آپریشن کی زد میں آیا اس دوران ستر کی دہائی کا عظیم جہد کار اور جہلاوان محاذ کی ذمہ داری نبھانے والا علی محمد مینگل بھی اسی لیے علاقے میں موجود تھا۔ ستر کی دہائی کی تاریخ توتک میں ایک بار اس وقت دہرایا گیا جب 18 فروری2011ء کو سینکڑوں گاڑیوں پہ مشتمل قابض ریاست کے عسکری اداروں کے اہلکار وں نے علاقے پہ ہلہ بول دیا۔ اس آپریشن کے دوران ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے گھروں میں لوٹ مارکرنے کے ساتھ بہت سارے بلوچ فرزندوں کو جبری طور پر لاپتہ بھی کیا، جبکہ دو بلوچ فرزند نعیم اوریحیٰ اس فوجی آپریشن میں شہید ہوجاتے ہیں اور مقصود جان جسے اسی آپریشن کے دوران جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا پانچ مہینے بعد 16جولائی 2011ء کو اس کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوتی ہے۔ ویسے تو”توتک“ کے نوجوانوں کو بلوچستان کے دیگر فرزندوں کی طرح اس آپریشن سے قبل بھی مختلف علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جیسے:2010ء میں کوئٹہ سے عمران اور لک پاس مستونگ سے ارشاد کا ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی جن کی تاحال کوئی خبر نہیں۔

نو مہینے بعد نومبر2011ء میں یہ علاقہ ایک بار پھر فوجی آپریشن کی زد میں آیا۔ اس آپریشن میں قابض ریاستی عسکری اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ضیااللہ نامی شخص جبری طور پر لاپتہ ہوجاتا ہے، اس کے بعد ریاست نے توتک کو مسلسل نشانے پہ رکھا اور 14 ستمبر 2012ء میں اپنے تشکیل دیا گیا ڈیتھ سکواڈ کے ساتھ توتک میں جبر کی اور داستان رقم کیں۔ اس آپریشن میں امتیاز اور مصطفی نامی افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔ اس فوجی آپریشن کے بعد قابض ریاست نے اپنے بنائے گئے آلہ کاروں کے ذریعے علاقے میں اپنے ٹھکانے بھی قائم کیے جہاں ایک مرکزی کیمپ کے علاوہ پورے علاقے کو حصار میں لینے کے لیے چھوٹی بڑی چوکیاں قائم کی گئیں۔

ریاست اور اس کے آلہ کاروں کی وہاں موجود گی کی وجہ سے وہاں کے باشندے ہر روز جبر کا شکار ہوتے رہیں۔ علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن کردی گئی، ظلم و بربریت کی دیگر داستانوں کے ساتھ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا عمل بھی انتہائی تیز ہوگیا جس کی وجہ سے آج بھی توتک کے 16افراد جن میں عتیق الرحمٰن، خلیل الرحمٰن، وسیم، ندیم، آفتاب، فدا، ڈاکٹر ظفر، آصف، عمران، ارشاد اور بعض دیگر نجانے ریاستی عقوبت خانوں میں اذیتوں کا شکار ہیں یا ریاستی بربریت سے شہید ہوچکے ہیں۔ جن کی جبری گمشدگی کی تفصیلات انسانی حقوق کی رپورٹس میں بھی موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سارے افراد علاقے سے مہاجرت کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ چودہ ستمبر 2012ء میں ریاست نے علاقے کو محاصرے میں لینے کے لیے جو کیمپ بنائے تھے ان کی سربرائی شفیق مینگل کو سونپ دی گئی تھی اور آج جبکہ دیگر چوکیاں ہٹادی گئی لیکن وہاں قائم مرکزی کیمپ علاقے میں متحرک ہے جس میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ شفیق مینگل اور اس کے جانشین اکثر قیام کرتے ہیں۔ جس دوران علاقے میں ریاست نے یہ ٹھکانے بنائیں اس کے بعد اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق اغوا کیے گئے افراد کو انہی کیمپوں میں رکھا جاتاتھا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

توتک عالمی توجہ کا باعث اس وقت بنا جب ڈاکٹر مالک کے دورحکومت یعنی 25جنوری 2014ء کو وہاں سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جن میں 170سے زائد بلوچ فرزندوں کی تشدد زدہ لاشیں ملی۔ اس اذیت ناک واقعہ نے انسانی حقوق کی تنظیموں جن ایمنسٹی انٹرنیشنل، بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن، انٹر نیشنل ہیورائٹس کونسل سمیت دیگر اداروں کو آواز بلند کرنے پہ مجبور کیا اور انہوں نے ہر فورم پہ اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے ریاستی کارستانی قراردینے کے ساتھ مجرموں کو قرار واقعی سزادینے کی اپیل بھی کی۔ اگر چہ تو اس ریاستی فعل نے عالمی دنیا کو اس کے خلاف قدم اٹھانے کی جانب نہیں اکسایا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاملے کو عالمی سطح پہ اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ریاست نے ان کے دباؤ میں آکر حکومت تبدیل کیا اور مرکزی کیمپ کے سوا دیگر چوکیوں کو علاقے سے ختم کیا۔یہ مرکزی کیمپ جس پر کچھ عرصے بعد پاکستان کے عسکری اداروں کے اہلکاروں نے دھاوا بھی بول دیا جس کی وجہ سے ان کاا پنا تشکیل دیا گیا ڈیتھ سکواڈ کے چند افراد مارے بھی گئے۔ دراصل ریاست دنیا کو گمراہ کرنے لیے یہ سارا کھیل کھیل رہا تھا جہاں وہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھی متحرک ہے۔ لیکن ریاست کا یہ مکر و فریب اس وقت دنیا کے سامنے آشکار ہوا جب 2018ء کے حکومتی الیکشن میں شفیق مینگل اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کا امیدوار تھا اور اس کا مسکن یہی کیمپ تھا۔جس نے دنیا کی آنکھوں دھول جھونکنے والے ریاستی عمل کا پردہ فاش کیا،اور دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والا یہ کیمپ آج بھی جوں کا توں قائم ہے جس میں ریاستی ڈیتھ سکواڈ کے لوگ رہائش پذیر ہیں، یعنی کہ ریاست نے اپنا قائم کیا گیا کیمپ جس کی سربرائی شفیق مینگل کررہا ہے ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور آج بھی یہ کیمپ نہ صرف شفیق مینگل بلکہ ریاستی اہلکاروں کا مسکن ہے۔ شہر سوختہ”توتک“ گزشتہ دس بارہ سالوں سے مسلسل جل رہا ہے، تمام ریاستی مظالم اپنی جگہ لیکن 170سے زیادہ دریافت ہونے والے انسانی ڈھانچے جو اجتماعی قبروں سے دریافت ہوئیں، انسانیت کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں، پر انسانی حقوق کے اداروں اور مہذب دنیا کی حالیہ خاموشی نہ صرف ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے بلکہ ان کی اس مجرمانہ غفلت سے نہ جانے آنے والے دنوں میں ”توتک“پہ مزید کونسا قہر نازل ہوجائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here