چین نے پاکستان پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ چینی ورکرز پر بار بار حملے کے ذمہ دار عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔
چین نے خبر دار بھی کیا ہے کہ تشدد "ناقابلِ قبول” ہے اور اس کی وجہ سے سی پیک منصوبوں میں رکاوٹ آئی ہے۔
عوامی سطح پر یہ غیر معمولی انتباہ بیجنگ کے سفیر کی جانب سے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار کے دوران سامنے آیا جس میں پاکستان میں چینی شہریوں سے متعلق سیکیورٹی کی مسلسل کوتاہیوں کا الزام لگایا گیا۔
یہ سیمینار اسلام آباد میں موجود انڈپینڈنٹ پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ہوا۔
چینی سفیر جیانگ زائڈون کی جانب سے رواں سال مارچ اور اکتوبر میں ہونے والے حملوں کا حوالہ دیا گیا جس میں سات چینی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
چینی سفارت کار نے مترجم کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ "ہم پر صرف چھ ماہ میں دو بار حملہ ہونا ناقابلِ قبول ہے۔”
انہوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی عسکریت پسندانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ قصورواروں کو شناخت کیا جائے، پکڑا جائے اور سزا دی جائے۔
خیال رہے کہ سی پیک منصوبوں کے تحت بلوچستان وپاکستان میں مائننگ ،انفراسٹرکچر، تجارت اور دیگر شعبوں میں چین نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
چین کے سفارت کار نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ "چین مخالف تمام عسکریت گروہوں” کے خلاف کارروائی کرے۔ ان کے بقول بیجنگ کے لیے "سیکیورٹی سب سے بڑی تشویش ہے” اور یہ "سی پیک” منصوبوں میں "رکاوٹ” ہے۔
انہوں نے کہا کہ محفوظ اور صحت مند ماحول کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
سی پیک کے تحت سڑکیں، ہائی ویز، بنیادی طور پر کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس اور بلوچستان میں گہرے پانی کی گوادر بندرگاہ کی تعمیر جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔
چینی ورکرز اور انجینئرز پر ہونے والے حالیہ حملوں میں زیادہ تر کی ذمہ داری آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
واضح رہے کہ اب تک بلوچستان وپاکستان میں ہلاک ہونے والے چینی ورکرز کی تعداد 21 ہو گئی ہے۔