بانک کریمہ کی شہادت عالمی دنیا کے منہ پرطمانچہ ہے , تحریر سمیر جیئند بلوچ

0
349

میں یقین سے اب بھی نہیں کہہ سکتا کہ بانک کریمہ ہم میں نہیں رہے۔ اس کے پیچھے بھی ایک،منطق ہے۔وہ یہ کہ ہم ہوش سنبھالتے ہی یہی سنتے آرہے ہیں کہ ہم تیسری دنیا کے لوگ ہیں۔یہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔تیسری دنیا تو دور کی بات ہے جب کوئی غیر فطری ملک میں بطور غلام اور مظلوم رہاہو تو ان سے بہتر کون جانے گا کہ،بربریت،دہشت گردی،حیوانیت کیا بلا ہوتی ہیں۔اگر کوئی قوم خود (حا ل)غلام نہ رہاہو ہمیشہ آزاد زندگی گذاررہاہو تو اس کے سامنے درندگی اور ظلم بارے بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہوگا۔یہی رشتہ ہمارے بلوچ غلام اور تہذیب یافتہ کہلانے والے ملکوں کے لوگوں کا ہے۔بلوچ پچھلے ستر سال سے اپنے نہ کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔کیوں کہ انھیں پاکستان جیسے ناکام ریاست محض اسلئے خون کے آنسو رونے پر مجبور کر رہاہے کہ آپ ا س قدرتی معدنی وسائل سے مالا مال خطہ پر کیوں آباؤ اجداد سے آباد چلے آرہے ہو۔؟ اس ایک ہی سوال کے جواب دینے پر ”آقا“ کہ یہ آباؤ اجداد سے میری زمین ہے۔ میں یہیں نہیں تو اور کہاں رہوں گا؟ پر قابض نالاں اور سیخ پا ہوکر جذباتی ہوجاتا ہے کہ آپ ہم جوابی کر رہے ہیں۔ لہذا آپ غدار، وحشی،جاہل انپڑھ،گنوار،بد تہذیب،روایات اقتدار سے آری بدمعاش،را اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔اس دلیل پر ایک طرف ہنسی آتی ہے تو دوسری طرف شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور یہ کہاوت یاد آتی ہے ”چور الٹاکوتوال کو ڈانٹے“ اس احمکانہ سوچ دیکھنے بعد غلام اور مظلوم،اس چور سے ہر برے عمل کا توقع رکھ کر اپنے قومی امنگو اور وقت وحالات کے نزاکت کو دیکھکر اپنے حال ماضی اور مستقبل کا مکمل فیصلہ کر نے کیلے اپنا کمر کس لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے بلوچ قوم پچھلے بیس سال سے

اس فیصلہ پر پہنچاہے کہ سسک سسک کر مرنے سے بہتر ہے ا پنے تمام توانی صرف کرکے درندگی کا مقابلہ کیا جائے۔ اگر قابض ہتھیار سے پنجہ آزامائی کر رہاہے، وہاں ہتھیار استعمال کریں،جہاں وہ زبان اور الفاظ کا استعمال کر رہاہے تو زبان اور الفاظ کا استعمال کرکے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کریں۔ جب بلوچ نے ان دونوں ہتھیار وں کا سہارا لیکر قابض کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرنا شروع کردیا تو،وہ سفاکیت پر اتر کر منگول اور ترکوں کے مکمل درندگی کے زمانے میں چلے گئے۔ مگر بلوچ نے ہتھیار کے ساتھ ساتھ زبان اور الفاظ سے دشمن پر وار زتیز سے تیز کرتا چلا گیا۔ یہاں دشمن بیس سال سے جاری جنگ میں اپنے غلام مظلوم بلوچ کے دیئے ہوئے سبق سے یہ سیکھنے کے قابل ہوگیا کہ زبان اور الفاظ بندوق کی جنگ سے زیادہ خطرناک ہتھیار بن رہے ہیں۔ انھوں نے زبانوں پر تالے اور الفاظوں پر سیاہی پھینکنے کا عمل شروع کردیا ۔ انھوں نے ابتداء سیاسی سرفیس تنظیموں سے کیا۔کیوں کہ ان کے الفاظ اور زبان انھیں زیادہ گھائل کرکے چگتے تھے۔چگتے بھی کیوں نہیں کیوں کہ مظلوم کی زبان سے سچی باتیں اور انکے زبان سے جھوٹی نکل جاتی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ وہ انسانیت چھوڑ کر درندگی سے کام لینا شروع کردیئے۔ انھوں نے بلوچستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہات قصبوں میں زندگی کے تمام شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔ہزاروں لوگ اٹھاکر زندانوں میں قتل کئے تو ہزاروں کو ہمیشہ کیلے پابند سلاسل رکھنا شروع کردیا۔یہاں وحشی ریاست نے عام بلوچ کو نیچا دکھانے زیر کرنے کیلے مختلف مظالم کے حربے استعمال کرنے شروع کردیئے۔کسی کے جسم کے اعضا کاٹے گئے تو کسی کو زندہ اجتماعی قبروں میں گاڑھنانا شروع کردیا۔یہاں قابض ریاست کا سوچ 1970کے دہائی والا تھا۔ وہ یہ بھول گئے، بلکہ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اتنی جلدی سامنے آکر ہماری بنگالیوں پر کی جانیوالی طرز پر درندگی بے نقاب کریں گے اور ہم اکیلے دنیا میں ننگے نظر آئیں گے۔ جب انھیں احساس ہوا کہ پانی تو پل کے اوپر سے گزر جانے والاہے۔ پورے مقبوضہ بلوچستان میں نیٹ ورک ڈیٹا بند کرکے اپنے گھر کے لونڈی میڈیا کو پابند کرنے کیلے قوانین بنائے اور وارننگ دی کہ خبر دار میری ظلم بربرزم بارے مظلوم کی فریاد میڈیا کے زینت بنانے کی ہرگز کوئی کوشش نہ کریں۔میڈیا بھی قابض ظالم ریاست کے فوج کے سامنے دم ہلاکر انکے جوتے چاٹنے شروع کردیئے۔یہ کام وہ تین وجوہات کی بناپر کرنے پر رضا مند بھی ہوگئے۔پہلا فوجی ظلم سے بچنے،دوسرا مال بنانے اور تیسرا اسلامی اور مسلمانی چورن اپنے دماغ کے اندر بھرجانے کی بنیاد پر قبول کرلیئے۔
ان کے اس حرکت رویہ اور جبر بعد بلوچ کو بھی مکمل سمجھ آ گئی،کہ دشمنی کی کمزوری دو ہی ہیں۔ ایک سرمچار کے بندوق کے سامنے بے بس ہے تو دوسری طرف،زبان، الفاظ ان کیلے زہر قاتل ہیں۔ چنانچہ انھوں نے پاکستان کی درندگی اور اسکے ہاتھوں اقوام متحدہ کے چارٹر کو پاؤوں تلے روندے جانے کی مکمل کہانی بتانے کیلے وہاں پہنچنا شروع کردیئے جہاں انھیں جدید ٹیکنالوجی کی سہولت میسر ہوئی۔اس سلسلہ میں ہزاروں قلم کار لکھاری،سیاسی کارکن بیرونی ممالک کا رخ کرنا شروع کردیئے۔ان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی چیئر پرسن بانک کریمہ بلوچ بھی شامل تھیں۔انھوں نے کینیڈا پہنچ کر بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم بربریت کی کہانی انسانی عالمی حقوق کے چیمپیئن اداروں کے سامنے بلمشافہ اور سوشل میڈیا کے زریعے پہنچانا شروع کردیئے۔تو قابض کے آنکھیں باہر نکل آناشروع ہوگئیں
۔یہاں بانک نے بھی جیسے شروع میں کہا گیا کہ فسٹ ورلڈ (دنیا) تو وہ اسی بات پر یقیناََ اڑی رہی کہ یہاں وہ سب کچھ درندگی ممکن نہیں جو تیسری دنیا خصوصاََ مقبوضہ بلوچستان میں غیرفطری ریاست میں ہوا کرتی ہیں۔ایک حساب سے ان کا سوچنا مثبت ہی تھا کیوں کہ اس بات میں شک نہیں کہ مغرب اپنے آباؤ اجداد کے کالے کرتوت سے مکمل جان خلاصی کی ہے۔مگر جو تیسری دنیا کے ممالک سے ان میں پیوند کاری ہورہی تھی۔ وہ ان سے یقیناََ پچاس فیصد بے خبررہے۔اگر وہ بے خبر نہیں ہوتے تو یقیناََ پاکستان جیسے غیر فطری ریاست کے ایجنٹ اور مذہبی شدت پسند بانک کریمہ بلوچ سمیت دسیوں پناہ گزین مہاجر ینوں کی صفائی سے قتل،اور انکے اپنے ہی شہریوں کے سرقلم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ ایک لمحے کیلے ماناکہ بانک کریمہ بلوچ کی موت مظلوم ا قوام کیلئے ایک سانحہ عظیم ہے۔ مگر وہاں تہذیب یافتہ اقوام کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ بھی ہے کہ اگر آپ کو علم نہیں تھاکہ غیر فطری ریاست پاکستان کتنا خطرناک اسلامی چورن
میں پکنے والا ناکام ملک ہے۔ مگر بلوچ،سندھی،پشتون،مہاجرین،اقلیتی برادری،ہندو،کرسچن،کے علاوہ دوسرے مذہبی مظلوم فرقوں سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور احمدیوں خصوصاََ شہید بانک نے ہر لمحہ چیخ چیخ کر کے واویلا کر رہی تھی کہ انسانیت کے ناطے اسلامی چورن میں پکنے والے نام نہاد ریٹائرڈ پاکستانی ایجسیوں اور فوج کے کارندوں کے ظلم سے نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے اقوام اور فرقوں کو بچائیں۔ جن پر مکار وحشی ملک پاکستان اس کا فوج مختلف نام کے لیبل چسپان کرکے آگ اور آہن برسا ر ہے ہیں۔ بانک سمیت مظلوموں کے یہ چیخ او پکار اپنے بنائے گئے قوانین نہیں تھے، بلکہ عالمی دنیا کے اپنے طے کردہ حدود کے دائرہ کار میں آتے تھے۔ پر عمل کرنے کیلے زور دے رہی تھیں۔لیکن مغربی دنیا خصوصاََ کینیڈا نے کسی مصلحت کی وجہ سے ان کے فریاد پر توجہ نہیں دی۔ بدقسمتی سے یہ عظیم سانحہ وہاں پیش آ یا جہاں کسی کو امید نہ تھی۔حالانکہ پندرہ سال قبل پاکستان کے ڈکٹیٹر آرمی چیف صدرپرویز مشرف نے نشہ میں دہت ایک انٹرویودوران خفیہ رازوں سے پردہ فاش کیاتھا کہ،باہر اپنے مخالفوں کو کیسے سادگی اور صفائی سے اپنے راستہ سے ہٹایا جاسکتاہے۔اس بات پر اگر وہ پہلے سوچتے تو آج مظلوموں کی کمر توڑنے کی یہ پاکستانی فوج آئی ایس آئی کی کوشش کامیاب نہی ہوپاتی کہ دو واراداتیں ایک ہی پیٹر ن میں دو مغربی ممالک میں اس طریقے سے انجام دے دیتے یعنی پہلے ساجد پھر بانک کریمہ۔ان وارداتوں اور سانحات کے بعد مغربی دنیا کے آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ پاکستان جب یہاں انکے گھر میں گھس کر کسی کو بھی آسانی اور صفائی سے موت کے منہ میں دھکیل کر مظلوموں کے چیخ وپکار کو دبا سکتاہے۔ تو اپنے ہاں جہاں اس کا قبضہ ہے وہاں کیا گل کھلا ئے گا؟۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ انسانیت کے بقاء کیلے اقوام متحدہ کے چارٹر میں جو مظلوم اورمحکوم اقوام کے آزادی کیلئے طے کیا جاچکاہے۔انھیں من وعن قبول کرنے کیلے پاکستان کو نکیل ڈالدیں۔دوسری فرست میں اپنے اپنے ممالک میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے مسلمانوں کے مراکز اور کیمپوں کو بند کیا جائے۔جہاں پانچ وقت تمام منافق مسلمان جمع ہوکر انسانیت کی تباہی کی دعا سرعام مانگ رہے ہوتے ہیں۔اور انھیں نفرت سے بھری دعاؤوں سے متاثرہوکر مذہبی پیشورانہ قاتل، اغواکار،زانی،وحشی جنم لیتے ہیں۔اگر جلداس دہشت گردی کو نہیں روکا گیا تومستقبل میں جو دہشت گردی افغانستان میں پیدا کی گئی تھی اس سے بھی خطرناک حالات مغربی ممالک میں جنم لیں گے۔ ویسے ایک بات طے ہے کہ مظلوم پہلے سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھااٹھاکر پک چکے ہیں۔ لیکن جو مستقبل میں اسلامی چورن پی کر پودے تناور درخت بن جائیں گے اس کا نقصان پوری انسانیت بھگتے گا، نتیجہ یہ ہوگا کہ جن میں کچھ انسانیت ہے وہ بھی باقی نہیں رہے گا پھر انسانی کھوپڑیوں سے عمارات تعمیر کرنے کا رواج عام ہوگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here