جرمنی میں 627 مسلم شدت پسندوں کی نشاندہی کرلی گئی

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

یورپ میں اسلام کے نام پر تخریب کاری کے حالیہ واقعات کے بعد جرمنی نے بھی سکیورٹی اقدامات بڑھا دیے ہیں۔

تازہ حملے فرانس اور آسٹریا کے شہروں میں کیے گئے۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پیر کو ہونے والے حملے میں ملوث ایک حملہ آور پہلے سے پولیس کی نظر میں تھا۔ اس بیس سالہ نوجوان کو پولیس مقابلے کے دوران گولی مار کی ہلاک کر دیا گیا۔

اطلاعات ہیں کہ وہ شخص کچھ عرصے سے ملک سے نکلنے اور اسلامک اسٹیٹ نامی مسلح تنظیم میں شمولیت کی کوششیں کر رہا تھا۔ اس کے باوجود سکیورٹی حکام اسے روک نہ پائے۔

جرمنی میں سکیورٹی حکام اس سال ستمبر تک 627 ممکنہ شرپسندوں کی نشاندہی کر چکے ہیں۔

ان میں بیس سالہ عبداللہ بھی شامل ہے، جس نے رواں برس چار اکتوبر کو ڈریسڈن شہر میں ایک ہم جنس جوڑے پر چاقو سے حملہ کردیا تھا۔ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا تھا۔

جرمنی میں حکام کو خدشہ ہے کہ اس قسم کے مزید حملے ہو سکتے ہیں۔ داخلی سلامتی سے متعلق انٹیلیجنس ایجنسی (BfV) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پچھلے سال تخریب کاری کی کئی ممکنہ کارروائیاں ناکام بنانے کا ذکر کر چکی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت زیادہ خطرہ ایسے حملہ آوروں سے ہے جو کسی انتہا پسند یا مسلح تنظیم کے پروپگینڈے سے متاثر ہو کر اکیلے ہی حملوں کے لیے نکل پڑتے ہیں۔

جرمن زبان میں معاشرے کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کو ‘گیفیرڈیر‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا انگریزی میں متبادل ‘ایجیٹیٹر‘ ہے۔ اردو میں اسے م±شتعل یا شرپسند کے معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ اصطلاح جرمن پولیس کی تراشی ہوئی ہے لیکن اب ملک میں اس کا استعمال عام ہوگیا ہے۔

یہ مشتبہ افراد عام طور پر کسی سیاسی یا مذہبی نظریے سے متاثر ہو کر اکیلے ہی واردات کرنے نکل پڑتے ہیں۔ ان افراد کو حراست میں صرف اسی وقت ہی لیا جا سکتا ہے جب کسی جرم کی منصوبہ بندی کرنے کے شواہد دستیاب ہو جائیں۔ جرمنی میں کسی کلعدم دہشت گرد تنظیم کی رکنیت ایک سنگین جرم ہے۔

جرمن سکیورٹی حکام نے چھ سو سے زائد ایجیٹیٹرز کے علاوہ پانچ سو دیگر افراد کو بھی واچ لسٹ پر رکھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی ممکنہ حملہ آور کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مالی معاونت میں شریک ہو سکتے ہیں۔

رواں برس پہلی جولائی تک قریب تین سو جہادی شام و عراق میں داعش کے مقبوضہ علاقوں میں برسرپیکار رہنے کے بعد واپس جرمنی پہنچ گئے۔

ان میں ۱۰۹ کو ‘ایجیٹیٹرز‘ کی فہرست میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ ۵۰ کو حمایت و معاونت کرنے والوں میں شامل کیا گیا ہے۔

حکام کے مطابق جرمنی بھر میں کوئی تیس ہزار لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں، جن میں بارہ ہزار افراد انتہا پسند سلفی عقیدے کے حامل ہیں۔

سکیورٹی حکام کے مطابق ہر مشتبہ شر پسند یا ایجیٹیٹر کی الگ نگرانی کی جاتی ہے۔ اس بات کا مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے کہ اسے کتنی مرتبہ زبانی کلامی تنبیہہ کی گئی ہے اور کتنی ٹیکنیکل آلات سے نگرانی کی جاتی رہی ہے۔

نگرانی کا عمل خاصا مشکل ہوتا ہے۔ ایک ایجیٹیٹر کی نگرانی کے لیے پچیس سے تیس اہلکار لگائے جاتے ہیں۔

قید سے رہا ہونے والے مشتبہ افراد کو سخت شرائط کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں روزانہ تھانے جا کر حاضری لگانی ہوتی ہے۔ ایسے شخص کی رہائش پر نگاہ رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے بھی نصب کیے جاتے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment