ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون ‘انتہا پسندی’ کو ہوا دے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘نوآبادیاتی حکومتوں کے ذریعے بااختیار ہونے والے مسلمانوں کو اپنی ‘نفرت’ کا بنیادی شکار بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ایک ارب 90 کروڑ مسلمانوں اور ان کی حرمت کی توہین کی گئی جس سے صرف انتہا پسندی کو تقویت ملے گی۔
دوسری جانب عراق میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف بغداد میں فرانسیسی سفارت خانے کے باہر سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔
ریلی کے نگراں اور عالم عقیل القدیمی نے فرانس کے صدر سے مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم ایمانوئیل میکرون کے گستاخانہ خاکوں کی حمایت میں تبصروں کی مذمت اور سختی سے مسترد کرتے ہیں’۔
احتجاج کے پیش نظر بغداد میں فرانسیسی سفارتخانے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔
مظاہرین نے فرانسیسی پرچم اور صدر کے پوسٹر جلائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا تھا کہ ایمانوئیل میکرون کو ‘دماغی معائنہ’ کرانے کی ضرورت ہے۔
ترک صدر نے اناطولیہ کے شہر قیصری میں ٹیلی ویڑن پر خطاب میں کہا تھا کہ ایسے سربراہ مملکت کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو مختلف مذہبی گروہوں کے لاکھوں ممبروں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتا ہو، سب سے پہلے انہیں اپنا دماغی معائنہ کروانا چاہیے۔
جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلالیا تھا۔
واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔
برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاو¿ن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔