سوال پیدا ہوتا ہے کہ مْسلم نے کیوں مزاحمت کی؟اُنکو کس چیز کی کمی تھی؟ کیا اس نے شہیک اور ذاکر کا بدلہ لینے کے لیے بندوق اُٹھایا تھا؟ آخر مْسلم نے کیوں جنگ لڑی؟ مْسلم کون تھے؟ مسلم نے کیوں مزاحمت کی،۔ شہید مسلم کو پتہ تھا کہ جنگ آزادی کا نتیجہ موت ہے، جو بھی جنگ کا حصہ بنتا ہے، اْن کو ایک دن ضرور جام شہادت نوش کرنا ہی پڑتا ہے، ان کو پتہ تھا کہ موت اور زندگی لازم و ملزوم ہیں، جو اس دنیا میں آتا ہے، ایک دن ضرور کوچ کر جاتا،مگر انقلابی اپنی موت کا چناؤ خود کرتا ہے،اور شہید مسلم بلوچ نے اس فلسفے کو ساتھیوں سمیت ثابت بھی کیا۔
شہید مسلم جان نے مشکے کے مقام میہی میں محمد حسین کے گھر میں 12 جنوری 1995 جنم لیا، اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی آبائی علاقہ میہی میں حاصل کی،،میہی کے پرائمری اسکول میں شہید نے پانچویں کلاس تک پڑھا، پھر اسْکے بعد جیبری کے اسکول میں اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا، شہید مسلم نے جیبری کے اسکول سے میٹرک پاس کیا،۔
واضح رہے کہ جیبری اور میہی کے درمیان کافی فاصلہ ہے، پھر بھی وہ ہر روز اسکول جاتے تھے، یہ وہی اسکول ہے جہاں سے بلوچ قومی رہنماڈاکٹر اللہ نزر، شہید رحمت، شہید شیہک جاں سمیت کئی شہیدوں نے تعلیم حاصل کی ہے، یہ وہی اسکول ہے، جہاں درجنوں ایسے طالب علم نکلے ہیں کہ ان کا مقصد اپنے وطن کو آزاد کرانا تھا،۔
شہید مسلم نے نوجوانی میں بلوچ تحریک میں خدمات سرانجام دینا شروع کیا،بلوغت کے عمر کے ساتھ ہی تحریک میں شمولیت اختیار کرتا، اپنے مسلح جدوجہد کا شروعات بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے کرتے ہوئے، اپنی ایمانداری، وطن پرستی، جفاکشی کا سب کو یقین دلاتا ہے، تنظیم کے ایک زمہ دار کارکن کے طور پر، بلوچستان کے محاذ پر فرائض سرانجام دیتا ہے، شہید مسلم جان اپنے بڑے بھائی شہید شیہک جان کی کمانڈمیں بی ایل ایف کے کیمپ میں ٹریننگ لیتے ہوئے،اس کے بعدوہ ایک گشتی اور جنگی نیٹ ورک کا رکن بن جاتا ہے۔
شہید مسلم ایک انتہائی نڈر اور بہادر انسان تھے، انہوں نے اپنے کم عمری میں بہت سے ایسے کام کئے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے بہادر اور نڈر انسان تھے، شہید مسلم اپنے نیٹورک کے گشتی ٹیم کے ساتھ، FWO کے کئی افسروں کو گرفتار کیا اور کئی افسروں کو انکے انجام تک پہنچایا، FWO براہ راست آرمی کیلئے کام کرتا ہے اور، باقاعدہ مسلح اور جدید ترین جنگی اسلحہ کے ساتھ آتے تھے، شہید نے کئی بار انکی بندوقیں چھین لیں، اور ان کے کاموں کے آگے رکاوٹ بن گئے، شہید نے قومی آزادی کی جہد میں نہ صرف مشکے بلکہ، راغئے خاران، گچک، گریشہ، آواران، کولواہ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں فرائض سرانجام دئیے۔
یاد رہے کہ شہید مسلم کے بڑے بھائی شہید شہک جان 30 جون 2015 کو شہید ہوئے، شہید مسلم جان اس جنگ میں اپنے اسنا ئیپر کے کم گولیوں کے ساتھ دشمن سے دوبدو جنگ لڑتے رہے، اپنے کم گولیوں کے ساتھ جنگی طریقوں سے اپنے دوستوں سے کور لیکر، فوجی گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اور دوسری طرف سے آکر فوج کو پسپا کردیا، یہ جنگ صبح کے پانچ بجے شروع ہوا اور شام کو ختم ہوا، اس جنگ میں فوج کے کئی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے، جن کا اعتراف پاکستانی فوجی افسر نے خود کیا تھا، اس جنگ میں فوج نے شدید نقصان کے بعد عام آبادی کو تشدد کا نشانہ بنایا، عام آبادی پر ظلم کیا، کیوں کہ وہ سرمچاروں کا مقابلہ نہ کر پائے۔
شہید مسلم جان 2015 کو اپنے ایمانداری اور بہادری کے وجہ سے سیکنڈ لفٹینینٹ کے عہدے پر فائض ہوئے، مشکے کے سخت سے سخت حالات میں باقی ساتھیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور کئی حملوں میں شریک ہوئے، شہید نہ صرف بی ایل ایف کے ساتھیوں کے ساتھ رہے بلکہ، شہید 2016 کے شروع سے لیکر 2017 کے آخر تک بی ایل اے اور یو بی اے کے ساتھیوں سمیت کاروائیاں کی، انہوں نے ساتھیوں سمیت شور، کلات کے مقام پر مادر وطن بلوچستان کی آزادی کے لئے خدمت سرانجام دئیے۔
یاد رہے شہید کمانڈر 2018 میں بنے تھے، شہید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے تحریک کے سفر کے دوران ایک انتہائی، سمجھدار، بہادر اور ہوشیا سرمچار تھے، جو ہمہ وقت کسی نہ کسی جگہ قابض ریاست کے خلاف کاروائی کرتے رہتے تھے۔ یاد رہے شہید نے جس بھی مشن کا سوچا، وہ اپنے مشن میں ضرور کامیاب ہوا، شہید اپنے سنیئروں کے فیصلے کو ہمیشہ مشعل راہ سمجھ کر ان کی ہدایت کے مطابق چلتے رہتے تھے، جب بھی کسی مشن کا سوچ لیتے وہ ضرور پورا کرتے تھے، چاہے ان کو دس دن یا پندرہ روز انتظار کرنا پڑے، وہ اپنے مشن کی کامیابی کے بعد واپس آتے تھے۔
2015 میں بی ایل ایف کے کئی ساتھی شہید ہوئے، جس میں کمانڈر سردو، کمانڈر علی نواز، کمانڈر شیہک، اور کمانڈر رحمت شامل تھے، اس کے بعد فوج کے ٹارگٹ میں کئی ایسے ساتھی تھے جس پر فوج نے انعام رکھا تھا، ان ناموں میں سے ایک شہمیر بھی تھے، جس پر پانچ لاکھ کا انعام تھا، مشکے میں فوج ان چند ناموں سے بہت خوفزدہ تھا، وہ ہمہ وقت ان کو مارنے کیلیے آپریشن کرتے تھے اور انھیں مارنے میں ناکامی کے بعد عام آبادی کو تشدد کا نشانہ بناتے اور ان کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے ، شہید مسلم کی شہادت سے کچھ دن پہلے ایک دوست نے بتایا کہ مسلم جان کی فوٹو فوج نے بازار میں لگایا ہے، جس پر دس لاکھ کا انعام رکھا ہے۔
شہید مسلم اپنے ساتھی، منصور، سکندر، اور سعداللہ عرف فدا کے ساتھ، دوران مشن، فوجی گھیرے میں آجاتے ہیں، صبح کے 9 بجے انکی دوبدو
جنگ شروع ہوجاتی ہے، وہ ایک بار فوجی گھیرے کو توڑکر نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور، دوبارہ ان کو گھیرا جاتا ہے، جہاں وہ شہید ہوجاتے ہیں، اس جنگ میں میڈیا اور عوامی زرائع کے مطابق، فوج کے بیس سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے اور بیس سے زائد زخمی ہوئے، شہیدوں کی لاشوں کو پاکستانی آرمی نے مشکے لیویز کے حوالے کردیا اور جبکہ فوجیوں کی لاشوں کو خفیہ طریقے سے آواران منتقل کردیا، فوج کو یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے لاشوں کو چھپاکر وہ اپنی ظالمانہ چہرے کو چھپا نہیں سکتے۔
شہید مسلم جان کے ماں، لمہ ماہناز بلکل پریشان نہیں ہیں، وہ آج فخر محسوس کررہی ہیں کہ انکے بیٹوں نے انکا نام روشن کردیا ہے، شہید شہیک اور زاکر جان نے بھی اپنی آخری سانس تک فوج کا مقابلہ کیا، اور جانیں قربان کردی، اسی طرح سے شہید مسلم جان بھی آخری سانس تک لڑا، اور یہ بات بھی ظالم ریاست کو خبر ہونا چاہئے کہ، شہید شیہک، شہید زاکر، شہید مسلم، کے بندوق زمین پر نہیں گرینگے، ان بندقوں کو اٹھانے کیلیے شہیدوں کے بھائی، اور ساتھی زندہ ہیں، اور آخری سرمچار اور آخری گولی کے ساتھ یہ جنگ جاری رہیگی، ہمارا مقصد بلوچستان کی آزادی ہے اور ہم شہادتوں سے مایوس نہیں ہونگے، جس طرح شہید سفر خان، نواز جان، شہید حاکم، ان کے فرزند معراج اور فرہاد، باقی ساتھیوں نے قربانی دی تھی، وہ جذبہ آج بھی موجود ہے، بلوچستان کی آزادی ہمارا مقّدر ہے۔