میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے طیارے کو مار گرانے کے دعوے کے بعد شمالی صوبے میں ایک فضائی کارروائی میں 31 افراد کو نشانہ بنایا گیا جس کو متاثرین نے جوابی کارروائی قرار دے دیا۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے نمائندے لیز گرینڈی کا کہنا تھا کہ ‘یمن میں الجوف کے علاقے الہیجہ میں ہونے والی فضائی کارروائی میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 31 شہری ہلاک اور دیگر 12 افراد زخمی ہوگئے ہیں’۔
خیال رہے کہ شمالی صوبے الجوف میں دو روز قبل سعودی عرب کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا اور رپورٹس کے مطابق سعودی اتحادی فورسز کی جانب سے علاقے میں ایک کارروائی کی جارہی تھی اور اسی طرح غیرمعمولی انداز میں طیارے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے نمائندے لیز گرینڈی نے بدترین کارروائی کی مذمت کی اور کہا کہ ‘عالمی انسانی قوانین کے مطابق متحارب گروپس پر لازم ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ دیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جنگ کو شروع ہوئے 5 برس کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن فریقین اب تک ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہیں جو افسوس ناک ہے’۔
دوسری جانب حوثی باغیوں کی جانب سے ان کے ٹی وی المصیرہ میں جاری بیان میں کہا گیا کہ جہاں طیارے کو مار گرایا گیا ہے وہاں کئی کارروائیاں کی جاچکی ہیں جس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اتحادی فورسز نے طیارے کی تباہی کے حوالے سے کہا کہ طیارے میں سوار دو افسران اور عملے کے اہلکار طیارے کے تباہ ہونے سے قبل ہی خود کو بچانے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن باغیوں کی جانب سے ان پر فائرنگ کی گئی جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
افسران اور عملے کے زندہ بچنے کے حوالے سے کچھ بتائے بغیر بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘افسران اور عملے کی جانوں کی ذمہ داری حوثی باغیوں پر عائد ہوتی ہے’۔
رپورٹس کے مطابق حوثی باغیوں نے ایک ویڈیو جاری کی اور کہنا تھا کہ میزائل کو روکنے کے لیے یہ ان کی جدید طریقے کا اغاز ہے اور طیارے کو رات کے اندھیرے میں فضا میں نشانہ بناگیا جس کے ساتھ ہی طیارہ تباہ ہوگیا۔
حوثی باغیوں کے ترجمان محمد عبدالسلام نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ میں جاری بیان میں کہا کہ ‘الجوف کے علاقے میں فضا میں ٹورناڈو (طیارے) کی تباہی دشمن کے لیے بڑا دھچکا ہے اور یمن میں باغیوں کی فضائی کارروائیوں کے توڑ میں شان دار بہتری کی جانب اشارہ ہے’۔
حوثی باغیوں کے زیرکنٹرول علاقے صنعا اور اطراف میں تازہ کارروائیوں کے بعد خوف و ہراس میں اضافہ ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ 2015 سے خانہ جنگی کے شکار یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والے اتحاد نے رواں ہفتے اعلان کیا تھا کہ جواہلکار یمن میں شہریوں پر حملوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی جبکہ اقوام متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی تھی۔
جن مقدمات کی تحقیقات کی جائیں گی ان میں 2018 میں یمن کے شمالی علاقے میں ایک اسکول بس پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے جس میں کم از کم 40 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔
تحقیقات میں ڈاکٹرز ود آو¿ٹ بارڈز (ایم ایس ایف) کے زیر انتظام ایک ہسپتال پر 2016 میں کی گئی ہلاکت خیز بمباری کا واقعہ بھی شامل ہے جو 19 افراد کی ہلاکت کی وجہ نا تھا۔
ان واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد فوجی اتحاد نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ذمہ داران کے خلاف اتحاد میں شامل ہر ملک کے قوانین کے مطابق کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
فوجی اتحاد میں متعدد عرب ممالک شامل ہیں لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس کے ستون ہیں جو 2015 سے یمن میں جنگی طیاروں سے حملے کررہے تھے۔
اس وقت سے لے کر اب تک اس لڑائی میں ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جس میں زیادہ تر عام شہری تھے، لاکھوں افراد دربدر ہونے پر مجبور ہوئے جس پر اقوامِ متحدہ نے اسے دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا تھا۔