وکلا تحریک کے روح رواں علی احمد کرد ایڈوکیٹ نے کیچ بار روم میں وکلاءاور اے این پی کے رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو ایک خونخوار انقلاب سے بچانے اور ترقی و خوشحالی کے لیے مقتدرہ کو تمام اداروں پر اپنا قبضہ ختم کر کے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ ملک کے سیاسی و جمہوری اداروں پر قابض ہے، عدلیہ، میڈیا اور پارلیمنٹ یرغمال بنے رہیں گے۔ ملک تباہی کا شکار رہے گی، جب عوام کی آواز کو بزور طاقت دبایا جائے گا تو اس کی قیمت ایک خونخوار انقلاب کی شکل میں ادا کرنی پڑے گی،اس حشر سے ڈرا جائے جب 22 کروڈ لوگ مقتدرہ کی زیادتیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔
سیاسی جماعتوں پر مقتدرہ کا کنٹرول ہے، عدلیہ اور میڈیا آذاد نہیں جبکہ پارلیمنٹ یرغمال ہے، سیاسی قوتوں پر حالات تنگ کر کے انہیں دیوار سے لگانے کے سبب ملک میں حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔یہ کوئی چھوٹا ملک نہیں فرانس کا انقلاب آیا تو کم آبادی کے باوجود بہت کچھ تیس نہس ہوا، روس اور ایران کے انقلاب بھی ایسے ہی آئے وہاں کم آبادیاں تھیں، یہاں 22 کروڈ لوگ بستے ہیں جب یہ مقتدرہ کے مظالم سے تنگ آکر ان کے خلاف سڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے تو جو تباہی آئے گی اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔
باچا خان سے بڑا لیڈر میں نے نہیں دیکھا ان کی فیض سے سیاسی علم اور تربیت پاکر ایک سیاسی کارکن ہوں، ہمیشہ میں نے مظالم کے خلاف آگے بڑھ کر آواز بلند کی، ظلم کے خلاف کبھی پچھلے صفوں میں مجھے نہیں دیکھا گیا۔محکوم اقوام کے وسائل پر قبضہ کر کے ان پر تشدد کیا جارہا ہے، حیات بلوچ کا قتل بھیانک واقعہ ہے، یہ ایک فرد کا قتل نہیں ایک سوچ کا قتل ہے اس کے پیچھے ایک فرد نہیں وہ ادارہ ہے جس کو اپنے ڈسپلن پر ہمیشہ ناز رہا ہے، کسی شخص کی موت کے لیئے ایک گولی کافی ہے مگر آٹھ گولیاں مار کر ضد اور بھڑاس نکال دیا گیا، جو ادارہ ہمیشہ نظم ضبط پر ایک حوالہ تھا آٹھ گولیاں مارتے وقت ان کے ساتھیوں نے نہیں روکا جس کا مطلب ہے کہ یہ قتل ایک شخص نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حیات بلوچ کے والدہ کی ہاتھ اٹھائے تصویر صرف ایک تصویر نہیں جب کے خلاف ایک سمبل اور تاریخی داستان ہے، جہاں جبر اور ظلم ہوگا یہ تصویر آواز اٹھاتی رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل اور سکھر میں گیارہ بچوں کا گلا گھونٹ کر انہیں قتل کرنے والد کا واقعہ ہوش ربا ہیں، یہ دونوں واقعات پاکستان کے سماج کی نفسیاتی پہلو آشکار کرتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں یہ سماج اب ٹوٹ چکا ہے، اس کو شکست و ریخت سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتا۔ ملک پر اوپر سے نیچے تک فیوڈل لارڈ مسلط ہیں، یہاں ہمیشہ ایک بالائی طبقے کی حکمرانی رہی ہے۔سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ وہ سیاست بچانے کی جدوجھد مریں، باچا خان، خان صمد خان اور ہمارے سیاسی اکابرین کی سیاسی تربیت علم اور سیاسی وڑن کے بغیر ملک کو صحیح ڈگر پر لانا ممکن نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی انا پرستی نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ملک کو بچانے کے لیے مقتدرہ کو سیاسی جماعتوں میں مداخلت کی پالیسی ترک کر کے تمام اداروں پر اپنا جمایا قبضہ ختم کرنا چاہیے۔ ملک کے تمام ادارے اس وقت یرغمال ہیں سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگایا جا چکا ہے جس کے نتائج انتہائی خطرناک نکلیں گے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کیچ سیاسی روایتوں کی امین سرزمین ہے، یہاں ہمیشہ سیاسی مزاحمت ایک علامت کے طور پر موجود رہی ہے، کیچ کو غیر سیاسی بنانے کی کوشش کی گئی اور بلوچستان میں سیاست ختم کر کے ایسے غیر سیاسی لوگ لائے گئے جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ایسے عناصر کے خلاف ہرحال میں مزاحمت ہوگی۔