بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور سندھ میں پولیو کی صورتحال انتہائی تشویشناک قرار

ایڈمن
ایڈمن
10 Min Read

انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ نے پاکستان میں پولیو کی صورتِ حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا ہے۔ بورڈ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع، بلوچستان میں کوئٹہ اور سندھ میں کراچی میں وائرس پھیل رہا ہے۔ اب اس کا پھیلاو¿ پولیو وائرس سے پاک علاقوں میں بھی شروع ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر ملکی سطح پر انسدادِ پولیو مہم نہ شروع کی گئی۔ تو اس سال پاکستان میں پولیو کیسز توقع سے زیادہ رونما ہو سکتے ہیں۔

انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) ایک آزاد ادارہ ہے جو کہ پولیو سے پاک دنیا کے حصول کی طرف پیش رفت کا جائزہ لیتا ہے۔

بورڈ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں وائلڈ پولیو وائرس کا پھیلنا بند نہیں ہوا۔

رواں برس اب تک ملک بھر میں پولیو کے 65 کیسز سامنے آئے ہیں۔ جب کہ گزشتہ برس جولائی تک ملک بھر میں 56 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے تھے جب کہ 2019 میں مجموعی طور پر 147 پولیو کیسز سامنے آئے تھے۔ 2020 میں خیبر پختونخوا میں 22، سندھ میں 21، بلوچستان میں 16 جب کہ پنجاب میں 6 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔

آئی ایم بی کی رپورٹ میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے کو یقینی بنانے کے اقدامات کرے۔

یاد رہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کے خدشے کے سبب مارچ میں پولیو مہم کو روک دیا گیا تھا۔ لیکن اب اس کرونا وائرس کے کیسز میں کمی کے بعد ملک بھر میں پولیو مہم کو بحال کر دیا گیا ہے۔

انسدادِ پولیو مہم کے دوران ہیلتھ ورکرز سماجی فاصلہ، ماسک کا استعمال اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے پہلے اور بعد میں سینٹائزر کا استعمال ضرور کرتے ہیں۔

حکام کے مطابق اگست میں مہم کے دوران ملک بھر کے 130 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر کے 3 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔

پولیو کے خاتمے کے ‘نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر’ کے مطابق مہم میں 2 لاکھ 25 ہزار تربیت یافتہ اہلکاروں نے حصہ لیا۔ ان اہلکاروں نے کرونا وائرس کے تحت تمام حفاظتی امور کے تحت گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے ہیں۔

‘پولیو ایمرجینسی آپریشن سینٹر پاکستان’ کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا ہے کہ پی وی ٹو پولیو وائرس کا پھیلاو¿ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے بڑا چیلنج ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے بتایا کہ حکام اس چیلنج سے بخوبی آگاہ ہیں اور پولیو مہم میں اس کے تدارک پر کام کر رہے ہیں۔

ان کے بقول ان کی کوشش ہو گی کہ دسمبر تک پی وی ٹو وائرس پر قابو پا لیا جائے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وائلڈ پولیو وائرس کیسز اگرچہ باقی دنیا میں ختم ہو گئے ہیں لیکن پی وی ٹو وائرس اب بھی امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ دنیا کے بیشتر ممالک سمیت پاکستان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔

ڈاکٹر صفدر کے مطابق پاکستان کی کوشش ہو گی کہ ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر کی انسدادِ پولیو مہم میں پی وی ٹو وائرس کو مستقل طور پر ختم کیا جائے۔ ان کے بقول یہ وائلڈ پولیو وائرس کی نسبت آسان ہدف ہے۔

دنیا بھر میں پولیو کی تین اقسام ہیں۔ جنہیں پی ون، پی ٹو اور پی تھری کہا جاتا ہے۔

حکومتِ پاکستان کے مطابق پی ٹو وائرس ملک بھر میں 1999 میں مکمل ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان میں پی تھری کا آخری کیس اپریل 2012 میں خیبر ایجنسی میں سامنے آیا تھا۔ 2013 کے بعد سے پاکستان بھر میں پی ٹو اور پی تھری پولیو وائرس کی اقسام ختم ہو گئی تھیں۔

ملک بھر میں چونکہ پی ٹو اور پی تھری کا خاتمہ ہو چکا تھا لہٰذا اپریل 2016 میں حکومت نے پولیو ویکسین کو ٹرائی ویلنٹ سے بائی ویلنٹ میں تبدیل کیا۔

ٹرائی ویلنٹ ویکسین تینوں اقسام کے انسداد کے لیے پلائی جاتی تھی۔ جب کہ بائی ویلنٹ ویکسین پی ون اور پی تھری کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔

بائی ویلنٹ ویکسین شروع کرتے وقت 2016 اور 2017 میں ملک بھر میں یہ یقینی بنایا گیا کہ کہیں ٹرائی ویلنٹ ویکسین باقی رہ نہ گئی ہو۔ اس ویکسین کی موجودگی میں یہ خطرہ برقرار تھا کہ اس کے ذریعے پی ٹو وائرس دوبارہ سامنے آ سکتا تھا۔

پاکستان میں گزشتہ سال پی وی ٹو وائرس کے کیسز دوبارہ سے گلگت بلتستان میں سامنے آئے ہیں جسے کنٹرول کرنے کے لیے حکام سرگرم عمل ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ‘پولیو ایمرجنسی سینٹر’ میں کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عبد الباسط کے بقول چار ماہ کے تعطل کی وجہ سے بچوں کی قوتِ مدافعت پر بھی بہت اثر پڑا ہے۔

تاہم وہ توقع کرتے ہیں کہ آئندہ ہونے والی ملک گیر مہم کی وجہ سے اس میں خاطرخوا کمی واقع ہو گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر عبد الباسط نے بتایا کہ اگست کی مہم ایم او پی وی ٹو کے تحت کی گئی۔ جب کہ آئندہ ہونے والی مہمات بھی اس نوعیت کی ہوں گی۔

واضح رہے کہ پاکستان میں پولیو ویکسین کے حوالے سے ہر دور میں سازشی نظریات زیرِ گردش رہے ہیں۔ کبھی لوگ پولیو ویکسین کو مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ تو کبھی پولیو ورکرز کو جاسوسی کے نیٹ ورک کا آلہ کار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بعض لوگ اس کو غیر شرعی سمجھتے ہیں۔ تو کوئی اسے نسل کشی کی بین الاقوامی سازش قرار دیتا ہے۔

پولیو حکام کے مطابق جعلی پراپیگنڈے اور غلط فہمیوں کی وجہ سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ شعور کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو آمادہ کرنا اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں کیے گئے پراپیگنڈے کے باعث پشاور میں پانچ لاکھ بچوں کے والدین نے ویکسین پلانے سے انکار کیا تھا۔

حکام کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ مسائل کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔

دوسری جانب 2012 سے اب تک پولیو ٹیموں پر حملوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جس میں پولیو ورکرز کے علاوہ، ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار اور عام شہری بھی شامل ہیں۔

پاکستان میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ انسدادِ پولیو پروگرام کو مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ اس تاثر کو اگرچہ رد کرتی ہے۔ البتہ رواں برس جون میں ہزاروں انسدادِ پولیو رضا کاروں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے۔

پولیو ایمرجنسی سینٹر کے کوآرڈینیٹر عبد الباسط فنڈز کی کمی سے متعلق اطلاعات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ پروگرامز کی ری اسٹرکچرنگ کر رہی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع جیسے پشاور، خیبر، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، ٹانک اور بنوں کی کچھ یونین کونسلز میں کمیونٹی بیسڈ ویکسی نیشن سسٹم چل رہا تھا جس کا مطلب تھا کہ ان علاقوں میں جتنے بھی اہلکار ہیں۔ اگر مہم ہو یا نہ ہو، انہیں مختلف تنخواہوں پر بھرتی کیا گیا تھا۔

ان کے بقول لیکن اس نظام کا جائزہ لینے کے بعد حکام اس نتیجے پر پہنجے کہ یہ نظام توقع کے مطابق کام نہیں کر رہا تھا۔ اور ان علاقوں کے ورکرز کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں تھی جس کے بعد پروگرام ختم کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیو اہلکاروں کو نوکری سے نہیں نکالا گیا بلکہ مہم کے دوران کام کرنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ جب کہ اس سے قبل انہیں پورے ماہ کی تنخواہ دی جاتی تھی۔

نائیجیریا کے گزشتہ ماہ پولیو فری ہونے کے اعلان کے بعد صرف پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک باقی رہ گئے ہیں جہاں پولیو کے کیسز پائے جاتے ہیں۔

انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ مستقبل میں اس مہلک بیماری سے لڑنے کے لیے پاکستان شاید دنیا کا اکیلا ملک ہی رہ جائے۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اگر بغیر کسی حادثے کے ملک میں صحیح معنوں میں مہم چلے تو وہ وقت دور نہیں کہ پاکستان کا نام بھی جلد ہی پولیو فری ممالک میں شامل ہو جائے گا۔

Share This Article
Leave a Comment