حیات بلوچ کا وحشیانہ ریاستی قتل محض ایک حیات بلوچ کا قتل نہیں ہے اور نہ ہی اس قتل کا مجرم کوٸی ایک فرد ہے،بلکہ بلوچ قومی آزادی سے خوفزدہ پاکستانی فاشیسٹ ریاست گزشتہ کٸی دھاٸیوں سے بلوچ عوام پر جنگی جراٸم کی مرتکب ہو رہی ہے،اس فاشیسٹ ریاست کا بیمانہ ہولناک اور جارحیت پر مبنی بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے،کوٸی ایسا وحشیانہ عمل باقی نہیں راہ جاتا جو بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لیے اس غیر فطری فاشیسٹ ریاست نے نہ اپنایا ہو،لیکن اپنے سماج کے گہرۓ درست اور ٹھوس تجزیے کی بنیاد پر جاری بلوچ قومی آزادی کی تحریک نوجوانوں کے خون کی بیش بہا قربانیوں کو سمیٹتے ہوۓ قومی جدوجہد کے کٹھن مراحل کو عبور کرتے ہوۓ پانچویں اور شدید مراحلے پر ہے،اس مراحلے پر پہنچتے ہوۓ قومی وقار اور نجات کی یہ لڑاٸی حتمی مراحلے میں داخل ہونے کے لیے پیش رفت کر رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ قابض ریاست اور اس کے سیکورٹی ادارۓ بلوچ قومی تحریک سے خوف زدہ ہیں،خوف کے اس عالم میں فاشیزم کو بے لگام کر دیا جاتا ہے
پاکستانی ریاست نے بھی بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے خوفزدہ ہو کر سیکورٹی اداروں کو ریاست دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دۓ رکھی ہے،لیکن حتمی مراحلہ کی طرف سفر کرتی ہوٸی بلوچ قومی آزادی کی تحریک فاشیسٹ ریاست کے ہر دہشت گردانہ عمل کا شکار ہونے والے حیات بلوچ جیسے نوجوانوں سے حیات لے رہی ہے،جنگی جراٸم پر مبنی ایسا ہر واقع بلوچ قومی تحریک آزادی کو طاقتور کرتا ہے جبکہ قابض ریاست کو پست اور کمزور کرتا ہے،قابض ریاست کی اس پستی کا اظہار آۓ روز بلوچ عوامی آبادیوں پر فوجی آپریشنز میں نظر آتا ہے تو کبھی نوجوانوں کی جبری اغوا کاری میں تو کبھی حیات بلوچ جیسے ہونہار طلباء کے بہیمانہ ریاستی قتل کی صورت میں آشکار ہوتا ہے،اس پستی کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ قابض افواج اور ریاست بلوچ سرمچاروں کی منصفانہ مزاحمتی لڑاٸی کو لیکر بے بس اور لا چار ہو چکی ہے،اسی لیے عوام کو جارحیت کا نشانہ بنا کر خوفزدہ کرنے کے حربے بھی نا کامی کا شکار ہو رہے ہیں،چونکہ بلوچ قومی آزادی کی لڑاٸی کو حیات بلوچ جیسے نوجوان اپنے خون سے آبیاری بخش رہے ہیں
جبکہ بلوچ سرمچاروں کی طاقت اور جنگی اصولوں کی پاسداری اور دیانتداری کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ وہ چاٸینہ کے کونسل خانے پر حملہ کرتے ہوۓ اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرتے ہوۓ جنگی اصولوں کی پاسداری کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ عوام میں سے کوٸی فرد واحد بھی مارا نہ جاۓ،سرمچار سیکورٹی چیک پوسٹ اور اہلکاروں کی گاڑیوں پر حملے کرتے ہوۓ ایسا انتخاب کرتے ہیں کہ عام راہ گیروں کا جانی و مالی نقصان نہ ہو مزید براں جب کسی ادارۓ کے اہلکاروں کو سرمچار پکڑ لیں تو سرمچاروں کی انقلابی عدالت میں کم عمر بچے کو زندہ چھوڑ دیا جاتا ہے
یہ فرق ہے آزادی کی لڑاٸی اور قبضہ گیری کے توسیع پسندانہ عزاٸم میں،یہ فرق ہے فاشیسٹ اور انقلابی کرداروں میں،اور یہ فرق ہے اصول پسندوں اور بد اصولوں میں،یہ فرق ہے جنگ کو امن اور آشتی کو قاٸم کرنے کے لیے لڑنے والوں اور جنگ کو عام انسانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے مسلط کرنے والوں میں،دراصل بنیادی طور پر یہ فرق ہے
بندوق کو نو آبادیاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے والوں اور بندوق کو کتاب کی راٸنماٸی میں استعمال کرنے والوں میں بلاشبہ بلوچ عوام کی جدوجہد گزرتے وقت کے ساتھ طاقت ور اسی لیے ہو رہی ہے کہ اس کے پیچھے کتاب سے راٸنماٸی کارفرماں ہے،قابض ریاست کتاب اٹھانے والے حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کو بندوق سے قتل تو کر سکتی ہے لیکن ان نوجوانوں کو زیادہ دیر تک غلامی اور قبضہ گیری کا شکار نہیں رکھ سکتی،چونکہ حیات بلوچ جیسے بہادر اور بے باک نوجوان قومی آزادی کی اس جدوجہد کو طاقت اور زندگی بخش رہے ہیں
حیات بلوچ کے وحشیانہ اور درد ناک قتل کو لیکر قابض ریاستی ادارۓ ریاست کے اس جرم کو فردِ واحد کا جرم ثابت کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہیں،حالانکہ حیات بلوچ کا قتل کوٸی پہلا ریاستی دہشت گردی کا عمل نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی نسل کشی جبری کمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہِ عمل ہے،ریاست کا خریدار اور ریاستی مفادات کا ترجمان میڈیا پوری طرح ریاستی جارحیت کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اس ریاستی جرم کو فرد کا جرم ثابت کرنے کے لیے پیش پیش ہے،بلوچ پاکستان نواز سیاسی قوتیں سہولت کار اور گماشتہ حکمران بھی حیات بلوچ کے بربریت پر مبنی وحشیانہ قتل پر قابض ریاست کی دی ہوٸی زبان بول رہے ہیں،اور حیات بلوچ کے قتل کو قومی مسلح جدوجہد کا شاخسانہ ثابت کرنے کی نا کام کوششوں میں مصروف ہیں،یہ سب قابض ریاست کے اوچھے ہتھکنڈۓ ہیں اور ان ہتھکنڈوں کا بھی ایک تاریخی تسلسل ہے گلبھوشن کے ڈرامے سے لیکر حیات بلوچ کے قتل تک اور ایسے ہتھکنڈوں میں ہمیشہ قابض ریاست کو منہ کی کھانا پڑی ہے،قابض ریاست کے ایسے ہر عمل کے بعد بلوچ عوام کے شدید ردِ عمل نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں نٸی روح پھونکتے ہوۓ اسے اگلے مراحلے میں داخل کیا ہے،موجودہ وقت میں بھی بلوچ قومی تحریک دیگر مظلوم و محکوم اقوام کی آزادی کی تحریکوں میں جڑت اور اتحاد کی بنیاد بنتی جا رہی ہے،مستقبل قریب میں محکوم و مظلوم کچلی ہوٸی اقوام کی مشترکہ قابض کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے راٸیں ہموار ہو رہی ہیں جس کی بنیاد مضبوط و منظم بلوچ قومی آزادی کی اور سامراج مخالف تحریک ہے اس تحریک کو حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کی قربانیاں حیات بخش رہی ہیں،انھیں قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ بلوچ آزادی پسند قوتیں قومی مزاج کو سمیٹتے ہوۓ مزاحمتی تحریک کو بلوچ عوام کی حمایت یافتہ قومی تحریک بنانے میں کامیاب ہوۓ ہیں،اور قابض ریاست کے مقامی ایجنٹ سہولت کار اور گماشتہ حکمرانوں کو ایک کونے میں دھکیل کر عوام کے سامنے بے نقاب کیا ہے،بلوچ قومی آزادی کی تحریک ہزاروں بلوچ شہدا کی قربانیوں کا تسلسل ہے جو بالاچ مری سے لیکر حیات بلوچ تک اور حیات بلوچ سے آگے بھی جاری ہے،یہی وہ قربانیاں ہیں جو قابض کے جارحیت پر مبنی فاشیسٹ رویوں اور کردار سے بلوچ شناخت،عظیم ثقافت اور زبان کو محفوظ رکھے ہوۓ ہیں،