جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کا تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہونیکا اعلان

0
239

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اندرونی اختلافات کی وجہ سے دھڑے بندی کا شکار ہو گئی تھی لیکن اب ایک مرتبہ پھر یہ تنظیم یکجا ہونے جا رہی ہے اور پیر کو باقاعدہ طور پر جماعت الاحرار اور حزب الاحرار نے تحریک میں ضم ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ دھڑے اپنے اپنے طور پر شدت پسندی کی کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور چند روز پہلے ان دھڑوں کے درمیان رابطے شروع ہوئے تھے۔

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک بیان کے مطابق ’جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی اور حزب الاحرار کے امیر عمر خراسانی نے تحریک طالبان پاکستان کے امیر ابوعاصم منصور کے ساتھ ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتے ہوئے اپنی سابقہ جماعتوں (جماعت الاحرار اور حزب الاحرار) کے خاتمے کا اعلان کیا اور اس بات کا عہد کیا کہ ان کے جماعتیں تحریک طالبان پاکستان کے شرعی اصولوں کی پابند ہوں گی۔‘

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ نور ولی کی جانب سے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے کے لیے کوششیں جاری تھیں اور گزشتہ چند روز کے دوران اس بارے میں تقریباً تمام امور طے کر لیے گئے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ چند ایک معاملات پر اختلاف پایا جاتا تھا جسے اتوار کی رات حل کر لیا گیا ہے۔

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان طالبان کی طرز پر پاکستان میں بھی تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی اور یہ تنظیم متعدد شدت پسند کارروائیوں میں ملوث رہی۔ اس تنظیم کے سربراہ نیک محمد ، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، مولانا فضل اللہ، خان سید سجنا اور دیگر کمانڈر رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تنظیم میں اختلافات بڑھتے گئے جس وجہ سے یہ تنظیم دھڑا بندی کا شکار ہو گئی تھی۔

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور بعد میں جماعت الاحرار کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے والے احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگست 2015 میں تحریک کے کچھ کمانڈروں کے تنظیم سازی کے عمل پر اختلافات تھے جن کی وجہ سے اگست 2015 کو جماعت الاحرار کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اس کے بعد جماعت الاحرار سے بھی کچھ لوگ علیحدہ ہوئے اور نومبر 2017 کو حزب الاحرار کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔

احسان اللہ احسان نے تحریری طور پر بی بی سی کو بتایا کہ ’جماعت الاحرار نے انتظامی اختلافات کی بنیاد پر ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کی تھی کیونکہ اس وقت ان کا مطالبہ تھا کہ ٹی ٹی پی کا تنظیمی ڈھانچہ افغان طالبان کے طرز پر ہونا چاہیے اور سارے کام ایک خود مختار شوریٰ کو کرنے چاہییں جس میں تمام گروپس کو ان کی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق نمائندگی حاصل ہو۔ اس معاملے پر اس وقت ٹی ٹی پی میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس کے نتیجے میں نئی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔‘

احسان اللہ احسان نے مزید بتایا کہ افغان طالبان کا طرز تنظیم یہ ہے کہ ہر کمانڈر کو ایک کھلا محاذ میسر ہوتا ہے یعنی وہ جہاں چاہے وہاں باقاعدہ اجازت سے کارروائی اور گروپنگ کر سکتا ہے اور شدت پسندوں کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ جس گروپ میں چاہیں چلے جائیں جبکہ پاکستانی طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ قبائلی تقسیم پر ہے جہاں ہر شدت پسند صرف اپنے قبائلی لیڈر کے ساتھ ہی مربوط ہوتا ہے، جس پر اعتراض تھا اور اب اس پر بات چیت کی گئی ہے۔

احسان اللہ احسان کے مطابق ٹی ٹی پی کا دوسرا بڑا مسئلہ ان کے مرکزی شوریٰ کا تھا یعنی مرکزی شوریٰ میں ہر گروپ کا ایک نمائندہ ہوتا ہے جبکہ افغان طالبان مرکزی شوریٰ میں صرف باصلاحیت افراد کو رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی نظر میں ان گروہوں کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ الگ الگ رہ کر ان کی قوت تقسیم رہے گی اس لیے وہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار اور زمینی حقائق کو دیکھیں تو جماعت الاحرار پاکستان مخالف گروپس میں زیادہ متحرک رہی ہے اور مفاہمت سے زیادہ عسکریت کی حامی رہی ہے۔ عمر خالد خراسانی اور ان کا گروپ اپنے مخالفین سے مزاکرات کا کبھی بھی قائل نہیں رہا۔

احسان اللہ احسان کے مطابق ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت مفتی نور ولی محسود نے امیر بنتے ہی اپنی تمام تر توانائی ناراض گروپس کو دوبارہ ٹی ٹی پی میں شامل کرنے پر لگائی اور اس میں انھیں کامیابی بھی ملی۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ دیگر دھڑے جو مختلف علاقوں میں شدت پسندی کی کارروائیاں کرتے رہے ہیں ان سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں تاکہ ایک تنظیم کے تحت انھیں اکٹھا کیا جا سکے۔ اس سے پہلے تحریک طالبان میں علیحدہ گروپ بنانے والے شہریار محسود کا دھڑا بھی ٹی ٹی پی کی قیادت پر متفق ہو چکا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد اگرچہ شدت پسندوں کی کارروائیاں بتدریج کم ہونا شروع ہو گئی تھیں لیکن اس دوران تشدد کے بڑے واقعات بھی رونما ہوئے تھے۔ تشدد کے یہ واقعات اب بھی چیدہ چیدہ علاقوں میں پیش آ رہے ہیں جن میں زیادہ تر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہیں۔

دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی اطلاعات ضرور ہیں کہ یہ لوگ متحد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اب وقت گزر چکا ہے اور یہ لوگ بے اثر ہو چکے ہیں اور ان کی کوششیں اب پاکستان میں کامیاب نہیں ہو رہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان شدت پسندوں کی طرف سے کوشش تھی کہ یہ سرنڈر کر کے واپس آ جائیں لیکن ان کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ حکومت انھیں کسی طور معاف نہیں کر سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپریشن ضرب عضب کے بعد تحریک کے لوگ بکھر چکے ہیں اور انھیں مزید افراد نہیں مل رہے جو ان کے ساتھ شامل ہوں اس لیے یہ لوگ اپنے طور پر کوششیں تو کر رہے ہیں لیکن انھیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here