حیات بلوچ کے قتل کے خلاف تربت میں احتجاجی مظاہرہ

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پاکستانی فوج کے ہاتھوں کیچ کے مرکزی شہر تربت آبسر کے مقام گزشتہ دنوں شہید ہونے والے بلوچ طالب علم حیات بلوچ کے قتل کے خلاف تربت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا

کراچی اور کوئٹہ کے بعد آج تربت میں ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراؤں سے ہوتے ہوئے شہید فدا چوک پر جلسے کی شکل اختیار کرگیا احتجاج میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین و بچوں سمیت مرد حضرات شامل تھے۔
احتجاجی مظاہرے میں موجود ایک خاتون کا کہنا تھا ہمیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہم سڑکوں پہ نکل آئے ہیں پہلے ہمارے سامنے سے ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جاتا تھا مگر اب سرعام انہیں گولیاں مارکر شہید کر رہے ہیں،

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایک نوجوان کا کہنا تھا ہم خاموش رہے تو مارے جائیں گے اگر بات کریں تو مارے جائینگے دس سال بعد اگر ہم پھر سے سڑکوں پہ نکل آئے ہیں ہم مجبور ہیں ہم اب بولیں گے،خاموش رہنے سے بہتر بات کرکے مارے جائیں۔

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ تربت میں طالب علم حیات بلوچ کا قتل ریاست کی بدترین دہشت گردی کا ثبوت ہے، انہوں نے کہا کہ ریاست بلوچ نوجوانوں کو مزاحمت کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کررہا ہے۔

اپنے خطاب میں مقررین نے مزید کہا کہ ریاست بلوچستان کے روشن خیال دماغوں کو ختم کرنے کے لیے آخری حد تک جارہا ہے، آئے روز بلوچ نوجوانوں کا ماروائے عدالت قتل بلوچستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان مقتل گاہ بن چکا ہے، بلوچ ریاست سے نا امید ہوچکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ریاست بلوچ نسل کشی کا فیصلہ کرچکی ہے۔

واضح رہے کہ 13اگست بروز جمعرات کو تقریباً 11، ساڑھے 11 بجے کے قریب جس باغیچے میں حیات کام کر رہا تھا اس کے قریب سڑک پر سے فرنٹیئر کور کی گاڑی گزر رہی تھی اچانک دھماکہ ہوا۔‘

دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغیچے میں گھس گئے اور انھوں نے حیات بلوچ کے والد کے بقول ’حیات بلوچ کو تھپڑ مارے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے گئے اور روڈ پر لا کر آٹھ گولیاں ماری گئیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔”
اس سے کے بعد بلوچستان سمیت کراچی میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اس سے قبل کراچی اور کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور بلیدہ و پنجگور میں حیات بلوچ کے یاد میں شمع روشن کیے گئے تھے

Share This Article
Leave a Comment