امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے پولینڈ کے ساتھ ایک نئے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت امریکی فوجیوں کو جرمنی سے پولینڈ میں تعینات کیا جائے گا۔
اس معاہدے کے بعد پولینڈ میں امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد 5500 کے قریب پہنچ جائے گی۔
پولش وزیرِ دفاع ماریوز بلیزیک نے کہا کہ اگر کسی خطرے نے جواز پیدا کیا تو یہ تعداد فوری طور پر 20 ہزار تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل جرمنی پر نیٹو میں معقول تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
مگر امریکہ کے اقدام سے نیٹو اتحادیوں میں ممکنہ روسی توسیع پسندی کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
انھینسڈ ڈیفینس کوآپریشن ایگریمنٹ (ای ڈی سی اے) نامی اس معاہدے پر امریکی وزیرِ خارجہ اور پولش وزیرِ دفاع نے سنیچر کو دستخط کیے۔
پولینڈ کے صدر آندریج دودا نے دستخط کی تقریب کے موقع پر کہا: ’یہ ایک وسیع یقین دہانی ہے، ایک یقین دہانی کہ کسی بھی خطرے کی صورت میں ہمارے سپاہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہوں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’اس سے یورپ کے ہماری طرف کے خطے میں موجود دیگر ممالک کی سلامتی بھی مضبوط ہو گی۔‘
صدر ٹرمپ نے ایک طویل عرصے سے شکایت کی ہے کہ یورپی نیٹو ارکان کو اپنے دفاع پر مزید خرچ کرنا چاہیے اور اتحاد کو برقرار رکھنے کے اخراجات میں مدد دینے کے لیے امریکہ پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے
اس وقت پولینڈ میں تقریباً 4500 امریکی فوجی تعینات ہیں اور اس نئے معاہدے کے تحت ایک ہزار مزید فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ امریکی فوج کی کور فائیو کے ہیڈ کوارٹرز کو بھی اس معاہدے کے تحت جرمنی سے پولینڈ منتقل کیا جائے گا۔
گذشتہ ماہ امریکہ نے تصدیق کی تھی کہ جرمنی میں موجود 38 ہزار سے زائد فوجیوں میں سے تقریباً 12 ہزار سپاہی نکال لیے جائیں گے۔
امریکی نے اسے فوجوں کی سٹریٹجک از سرِ نو تعیناتی قرار دیا ہے۔ تقریباً 6400 سپاہیوں کو گھر واپس بھیجا جا رہا ہے جبکہ دیگر کو پولینڈ، اٹلی اور بیلجیئم بھیجا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام جرمنی کی جانب سے دفاعی اخراجات کے نیٹو اہداف کو پورا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اٹھایا جا رہا ہے۔
یہ نیا معاہدہ جسے اس کے حامی نیٹو کا بہتر دفاع کرنے اور ماسکو کے خلاف مزاحمت کو مضبوط کرنے کی حکمتِ عملی قرار دے رہے ہیں، درحقیقت اس کی وجوہات اتنی ہی سیاسی ہو سکتی ہیں جتنی کہ دفاعی۔
امریکہ پہلے ہی پولینڈ میں نیٹو کے ایک چھوٹے اور کثیرالقومی جنگی گروہ کی قیادت کرتا ہے اور اس میں تعاون کرتا ہے جبکہ معمول کی مشقوں میں اضافی فورسز بھی شامل ہوتی ہیں۔ ایک زمینی بیلسٹک میزائل دفاعی نظام پہلے ہی زیرِ تعمیر ہے۔
مگر سنہ 2018 سے پولش سیاستدان مزید چیزوں کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے پر تو انھوں نے ملک میں امریکی فوج کے ایک پورے ڈویڑن کے قیام کے حق میں بھی دلائل دیے تھے اور کہا تھا کہ پولینڈ اس کے کچھ اخراجات بھی برداشت کرے گا۔ اس منصوبے کو کچھ لوگوں نے ’قلعہِ ٹرمپ‘ قرار دیا تھا۔
یہ نیا معاہدہ اس ’قلعے‘ سے تو کافی دور کی چیز ہے مگر اس سے صدر ٹرمپ کی ترجیحات کے بارے میں واضح پیغام جاتا ہے۔ مضبوط پولینڈ جس کے دفاعی اخراجات خطے میں نسبتاً زیادہ ہیں، ایسا اتحادی ہے جو صدر ٹرمپ پسند کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ پہلے ہی جرمنی سے کچھ فورسز نکالنے کا اعلان کر چکے ہیں جو ان کے مطابق دفاعی اخراجات میں تعاون نہیں کر رہا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ فورسز کی منتقلی سے نیٹو ایسے وقت میں مضبوط ہو گی جب اس کے کئی اہم مسائل بظاہر اندرونی تعلقات پر منحصر ہیں۔
اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد صدر ٹرمپ نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم مزید بے وقوف بنے نہیں رہ سکتے۔ ہم اس لیے فورسز کم کر رہے ہیں کیونکہ وہ بل ادا نہیں کر رہے۔ یہ بہت سادہ سی بات ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے ایک طویل عرصے سے شکایت کی ہے کہ یورپی نیٹو ارکان کو اپنے دفاع پر مزید خرچ کرنا چاہیے اور اتحاد کو برقرار رکھنے کے اخراجات میں مدد دینے کے لیے امریکہ پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
اتحادیوں کے درمیان یہ تنازع نیٹو کے تمام ارکان کے درمیان طے شدہ اہداف کے گرد گھومتا ہے جس کے مطابق سنہ 2024 تک تمام ممالک کو اپنے دفاعی اخراجات اپنی اپنی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد تک لانے ہوں گے۔
دیگر ممالک کی طرح جرمنی کو بھی ابھی اس ہدف تک پہنچنا ہے۔ جرمن حکام نے امریکی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ اس سے نیٹو کمزور جبکہ روس مضبوط ہو سکتا ہے۔