بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تربت آبسر کے رہائشی حیات مرزا بلوچ کو سیکورٹی فورسز نے والد کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا اور وحشیانہ تشدد کے بعد اندھا دھند فائرنگ کے بعد شہید کردیا ۔ترجمان نے حیات مرزا کی شہادت کو بلوچ نسل کشی کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ طالب علموں کی ماورائے عدالت گرفتاری،تشدد اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی معمول کا حصہ ہے۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ طالب علموں کا قتل عام دو دہائیوں سے جاری ہے۔سیکورٹی فورسز آئے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ نوجوانوں،بزرگوں اور خواتین کو لاپتہ کرکے نا معلوم مقام پر منتقل کردیتے ہیں اور تفتیش کے نام پہ غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرتے ہیں۔
ترجمان نے مذید کہا کہ حیات مرزا بلوچ پہلے طالب علم نہیں جو سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہوئے بلکہ اس واقعے سے قبل بھی متعدد طالب علم سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔دو مارچ دو ہزار دس کو خضدار یونیورسٹی میں شہید جنید بلوچ اور شہید سکندر بلوچ کی شہادت میں سیکورٹی ادارے ملوث ہے۔
بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں کو کالعدم قرار دینے کے بعد طالب علموں کے گرد گھیرا مذید تنگ کردیا گیا ہے۔تعلیمی اداروں سے بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی اور تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کو ذہنی اضطراب میں مبتلا کرکے تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی سازشوں کو تقویت فراہم کرنے والے ادارے حیات بلوچ کے قتل کے ذمہ دار ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں بلوچ طالب علموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی خاموش کرو اور قتل عام کرو پالیسی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے تمام طالب علم یکجا ء ہو کر آواز بلند کریں کیونکہ ہماری خاموشی ہمارے قتل عام کی سب سے بڑی وجہ ہے۔اگر بحثیت بلوچ ہم نے ظلم کے خلاف یک مشت ہو کر آواز بلند نہیں کی تو اسی طرح قتل ہوتے رہے گے۔