ریکوڈک پراجیکٹ کے لیے 1.2 ارب ڈالر کی امریکی مالی معاونت کی منظوری

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

پاکستان میں امریکی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ حال ہی میں امریکہ کے ایکسپورٹ-امپورٹ (ایگزم) بینک نے پاکستان کے لیے ایک ارب 25 کروڑ ڈالرز کی نئی مالی معاونت کی منظوری دی ہے۔

سفارتخانے کی جانب سے امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کی ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اس مالی معاونت کا مقصد بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے سے اہم معدنیات کی کان کنی میں مدد فراہم کرنا ہے۔

نیٹلی بکر کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں ایگزم پراجیکٹ فائننسنگ کے تحت ریکوڈک منصوبے کو چلانے کے لیے درکار تقریباً دو ارب ڈالرز کے کان کنی جدید آلات اور خدمات فراہم پاکستان کو فراہم کی جائیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں امریکہ میں چھ ہزار جبکہ بلوچستان میں 7500 نوکریاں پیدا ہوں گی۔

امریکی سفارتکار کا کہنا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ کان کنی کے منصوبوں کے لیے ایک ماڈل ہو گا جس سے امریکی برآمد کنندگان کے ساتھ ساتھ مقامی پاکستانی کمیونٹیز اور شراکت داروں کو فائدہ پہنچے گا۔

نیٹلی بیکر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس طرح کے معاہدوں کو امریکی سفارت کاری کا محور بنایا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ امریکی اور پاکستانی کمپنیوں کے درمیان معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں ایسے مزید معاہدوں کے لیے پرامید ہیں۔

یاد رہے کہ شورش زدہ بلوچستان کی زمین میں وافر مقدار اور سب سے قیمتی معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر سٹریٹجک نوعیت کے معدنیات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے پاکستان کا معدنیاتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔

30 نومبر کو بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ( بی ایل ایف) جو بلوچستان کی آزادی کے لئے سرگرم ومتحرک ہے کے خصوصی بٹالین سدو آپریشنل بٹالین (سوب ) کے ایک خاتون فدائی زرینہ رفیق عرف ترانگ ماہو نے ضلع چاغی کے شہر نوکنڈی میں سیندک اور ریکوڈک پراجیکٹس کے کمپائونڈ کے مرکزی گیٹ پر فدائی حملہ کیا جس کے بعد دیگر سرمچار کیمپ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔

36 گھنٹوں جاری رہنے والی اس آپریشن میں 6 سرمچار شہید ہوئے جبکہ متعد سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ۔ آپریشن میں پروجیکٹس سے جڑے متعدد غیر ملکی انجینئرز و ماہرین کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

بعد ازاں علاقائی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے بعد علاقے میں بڑے پیمانے پربڑے طیاروں کی آمدورفت دیکھی گئ جن کی تعداد سو سے زائد تھی اور امکان ظاہر کیا گیا کہ وہ سیکورٹی فورسز اور غیر ملکیوں کی لاشوں سمیت سونے و تانبے کی اسٹور کی گئی بڑی کھیپ کو فوری طور پر نوکنڈی سے کوئٹہ اور پاکستانی کے دیگر محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے تھے ۔

سنہ 1970 کی دہائی میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) نے ریکوڈک اور سیندک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی نشاندہی کی تھی۔

چاغی ضلع میں واقع ریکوڈک ذخائر کو اکثر ایک ‘سویا ہوا دیو’ کہا جاتا ہے۔ کئی دہائیاں قبل جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے یہاں سونے کے ممکنہ ذخائر کا سراغ لگایا تھا لیکن کئی سال تک یہ منصوبہ قانونی اور مالیاتی تنازعات میں پھنسا رہا۔ اب کینیڈین کمپنی ’بیریک گولڈ‘ کی قیادت میں اسے دوبارہ بحال کیا جا رہا ہے۔

سنہ 2022 کے آخر میں ایک نئے معاہدے کے تحت اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوا، جس میں بلوچستان حکومت کو 25 فیصد، وفاق کو 25 فیصد اور کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کو 50 فیصد شیئر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت بیریک گولڈ نے یہاں سرمایہ کاری اور اس دہائی کے اختتام تک پیداوار شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

آج ریکوڈک کا سرخ پہاڑی علاقہ، جو طویل عرصے سے خاموش تھا، دوبارہ کھدائی اور سروے ٹیموں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اور اب حکام اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہاں سے پیداوار سنہ 2028 تک شروع ہو جائے گی، جبکہ اس وقت منصوبے کے لیے سرمایہ جمع کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جن میں، مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی کمپنی منارا منرلز کی ممکنہ سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔

بیرک گولڈ کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) مارک برسٹو نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ دوسرے مرحلے کے مکمل ہونے پر سالانہ 400,000 ٹن تانبے کی پیداوار کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ریکوڈیک سے معدنیات کی کان کنی کے لیے پہلے مرحلے میں 5.5 ارب ڈالر کے ترقیاتی اخراجات کیے جائیں گے اور 2028 تک کان سے 2 لاکھ ٹن کاپر (تانبا) کنکریٹ اور 2 لاکھ 50 ہزار اونس سونے کی سالانہ پیداوار شروع ہو جائے گی۔

Share This Article