پنجاب میں مقامی زبانوں کی ترقی و ترویج کا فیصلہ ، بلوچی مکمل نظر انداز

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے مقامی زبانوں و ترقی و ترویج کے لئے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں باقائدہ ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے۔لیکن مقامی زبانوں میں” بلوچی "کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔

پنجابی اور مقامی زبانوں کے فروغ سے متعلق ہدایات پر عملدرآمد کے نام سے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی، سرگودھا کی طرف سے جاری کی گئی اس نوٹیفکیشن میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی ہدایات کے تحت سرکاری اسکولوں میں پنجابی اور دیگر مقامی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کےا حکامات دیئے گئے ہیں۔

نوٹیفکیشن میں دیئے گئے احکامات میں کہا گیا ہے کہ طلبہ کو شائستہ اور باادب پنجابی سکھائی جائے۔ غیر رسمی یا غیر مہذب الفاظ جیسے "خراب پنجابی” سے گریز کیا جائے اور "جی” جیسے باادب الفاظ کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔

جنوبی اور شمالی پنجاب کے علاقوں میں مقامی زبانیں جیسے سرائیکی اور پوٹھوہاری کو مقامی سیاق و سباق کے مطابق فروغ دیا جائے۔

ہیڈ ٹیچرز طلبہ کے لیے ایسی سرگرمیوں کا اہتمام کریں جن سے وہ اپنی مقامی زبان روانی اور ادب کے ساتھ سیکھ سکیں۔

اسکولوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ طلبہ کو تقریری اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے تیار کریں تاکہ وہ اپنی مقامی زبان میں حصہ لے سکیں۔

تمام ضلعی ایجوکیشن آفیسرز اور ڈپٹی ایجوکیشن آفیسرز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مقررہ وقت میں ان ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے متحرک بلوچ سیاسی کارکن سعدیہ بلوچ نے حکومت پنجاب کی جانب سے مقامی زبانوں کی ترقی و ترویج کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم اور بلوچی زبان کو نظر انداز کر کے یہ پالیسی نامکمل رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب واقعی مقامی زبانوں کی عزت و ترویج چاہتا ہے تو اسے بلوچی زبان کو بھی سرکاری سطح پر اسکولوں میں پہچان، شناخت اور نصاب میں باقاعدہ جگہ دینی ہوگی، کیونکہ جنوبی پنجاب کی اصل ثقافتی شناخت میں بلوچی زبان بنیادی حصہ ہے، اور اسے نظرانداز کرنا لاکھوں بلوچ بچوں کے بنیادی لسانی حق سے انکار ہے۔

سعدیہ بلوچ نے مزید کہا کہ پنجاب کی جغرافیائی اور آبادیاتی حقیقت یہ ہے کہ کوہِ سلیمان کے پہاڑوں سے لے کر راجن پور، تونسہ، ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ، رحیم یار خان تک صرف سرائیکی یا پنجابی نہیں، بلکہ بڑی حد تک بلوچ اکثریتی علاقے ہیں جہاں نسلوں سے بلوچی زبان گھروں، بستیوں، پہاڑوں اور قبائلی زندگی کا مرکزی ستون ہے۔

Share This Article